{۳}سکندر ذُوالقَرنَین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے مدد مانگی: جب حضرتِ سیِّدُناسکندر ذُوالقَرنَینرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے جانبِ مَشرِق سفر فرمایا تو ایک قوم کی شکایت پر یاجُوج ، ماجُوج اور اس قوم کے درمیان دیوار قائم کرتے ہوئے اس قوم کے اَفراد سے ارشاد فرمایا : فَاَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّةٍ ترجمۂ کنز الایمان:میری مدد طاقت سے کرو۔ (پ۱۶، الکھف:۹۵) {۴} دینِ خدا کی مدد کرو: اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ یَنْصُرْكُمْ ترجَمۂ کنز الایمان:اگر تم دینِ خدا کی مدد کرو گےاللہتمہاری مدد کرے گا۔ (پ۲۶، محمد:۷) {۵}نبی کا غیرُ اللہسے دین کے لئے مدد طلب فرمانا: حضرتِ سیِّدُنا عیسیٰ رُوحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامنے فرمایا:
قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِۚ- (پ۳، اٰل عمران:۵۲)
ترجمۂ کنز الایمان:کون میرے مددگار ہوتے ہیںاللہکی طرف ؟ حواریوں نے کہا: ہم دینِ خدا کے مدد گار ہیں ۔
{۶}اللہ عَزَّوَجَلَّکا غیرُ اللہ کو مددگار فرمانا:
فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ (۴) (پ۲۸، التحریم۴)
ترجمۂ کنز الایمان: توبیشکاللہ ان کا مدد گار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں ۔
کُن کا حاکم کردیا اللہنے سرکار کو
کام شاخوں سے لیا ہے آپ نے تلوار کا (سامان بخشش)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
کوئی فردِ بشر غیرِ خدا کی مدد کے بِغیر رہ ہی نہیں سکتا!
سُوال (14) : کیا آپ کے کہنے کامطلب یہ ہے کہ کوئی فردِ بشر غیرِ خدا کی مدد کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا؟
جواب: جی ہاں۔ مَثَلاً آپ کار میں جارہے ہیں ، اچانک آپ کی کار روڈ پر ’’ اَڑ ‘‘ گئی، دھکّے دینے کی حاجت پیش آئی! کیا کریں گے ؟ لا مُحالہ راہ گیروں سے ہی عرض کرنا ہوگا کہ برائے مہربانی ذرا دھکّا لگا دیجئے! ہو سکتا ہے بعض رَحْم کھا کر دھکّے لگائیں اور گاڑی چل پڑے ! دیکھا آپ نے ! آپ کو حاجت پیش آئی ، آپ نے غیرِ خدا سے حاجت روائی چاہی، انہوں نے مدد کر دی اور آپ کی مُشکلِکشائی ہوگئی! اگر آپ کہیں کہ یہ تو چلتے پھرتے زندہ انسانوں نے مدد کی! تو لیجئے بعدِ وفات مدد کی ایسی دلیل عرض کرتا ہوں کہ اِس ’’ مدد ‘‘ کا ہر مسلمان اثر لئے ہوئے ہے چُنانچِہ
50کی جگہ پانچ نَمازیں کیسے ہوئیں ؟
حضرتِ سیِّدُنااَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا: شَہَنْشاہِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میری اُمّت پر پچاس نَمازیں فَرْض فرمائی تھیں۔ جب میں مُوسیٰ (عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) کے پاس لَوٹ کر آیا تو مُوسیٰ (عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) نے دریافت کیا کہ اللہ تبارَکَ وَ تعالیٰ نے آپ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی اُمَّت پر کیا فَرض کیا ہے؟ میں نے انہیں بتایا تو کہنے لگے: اپنے ربّ تعالیٰ کے پاس لَوٹ کر جائیے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی اُمَّت اِتنی طاقت نہیں رکھتی۔ میں لوٹ کر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پاس گیا، اُن سے کچھ حصّہ کم کردیا گیا۔ جب پھر مُوسٰی (عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) کے پاس لوٹ کر آیا تو اُنہوں نے مجھے پھر لَوٹا دیا ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا: اچّھا پانچ ہیں اورپچاس کی قائم مقام ہیں کیونکہ ہمارے قول میں تبدیلی نہیں ہوتی۔ مُوسیٰ (عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) کے پاس لوٹ کر آیا۔ اُنہوں نے کہا: پھر اللہ تبارَکَ وَ تعالیٰ کے پاس لوٹ جائیے ۔ میں نے جواب دیا: مجھے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے شَرْم محسوس ہونے لگی ہے۔ ( اِبنِ ماجہ ج۲ ص۱۶۶ حدیث