فرحت و مَسَرَّت کا اظہار کیا۔ دوسرے دن30 روپے کی نُکْتِی ( ایک بَیسن کی مٹھائی جو موتی کے دانوں کی طرح بنی ہوتی ہے) منگوا کرمیں نے سرکارِ بغداد حُضُورِ غوثِ اعظم شیخ عبد القادِر جِیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکی نیاز دِلوائی اور اپنے ہاتھوں سے تقسیم کی ۔ میں 35 سال سے سانس کے مَرَض میں مبتَلا تھا ، کوئی رات بِغیر تکلیف کے نہ گزر تی تھی، نیز میری سیدھی داڑھ میں تکلیف تھی جس کے باعِث صحیح طرح کھا بھی نہیں سکتا تھا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ مَدَنی قافِلے کی بَرَکت سے دورانِ سفر مجھے سانس کی کوئی تکلیف نہ ہوئی اور اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ میں سیدھی داڑھ سے بِغیر کسی تکلیف کے کھانا بھی کھا رہا ہوں ۔میرا دل گواہی دیتا ہے کہ عقائدِ اَہلسنّت حق ہیں اور میرا حُسنِ ظن ہے کہ دعوتِ اسلامی کا مَدَنی ماحول اَللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے پیارے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں مقبول ہے ۔
چھائے گرشَیطَنَت ، تو کریں دیر مت قافلے میں چلیں ، قافِلے میں چلو
صُحبتِ بد میں پڑ، کر عقیدہ بگڑ گر گیا ہو چلیں ، قافِلے میں چلو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
غیر اللہ سے مدد مانگنے کے بارے میں سوال جواب
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! بعض لوگ اَللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کے سوا دوسرے سے مدد مانگنے کے تعلُّق سے وَسوسوں کا شکار رہتے ہیں اُن کو سمجھانے کی کوشش کا ثواب کمانے کی اچّھی اچّھی نیّتوں سے چند سوال جواب پیش کئے جاتے ہیں ، اگر ایک بار پڑھنے سے تسلّی نہ ہو تو تین بار پڑھ لیجئے ، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ اِنْشِراحِ صَدْر ہو گایعنی سینہ کُھل جائے گا، بات دل میں اُتر جائیگی ، وَسوَسے دُور ہوں گے اوراطمینانِ قلب نصیب ہو گا۔
حضرت علی کو مُشکلکُشا کہنا کیسا ہے؟
سُوال (1) :حضرت علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو مشکلکشا کہنا کیسا ہے؟ کیا صِرْف اَللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہی مُشکلکُشا نہیں ؟
جواب:مُشکِلکُشا کے معنی ہیں : ’’ مُشکِل حل کرنے والا، مشکل میں مدد کرنے والا۔ ‘‘ بے شک حقیقی معنوں میںاَللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ہی مُشکِلکُشا ہے، مگر اُس کی عطا سے انبیا ئ، صَحابہ اور اولیا بلکہ عام بندے بھی مُشکلِکُشا اور مدد گار ہو سکتے ہیں اِس کی عام فَہم مثال یہ ہے کہ پاکستان میں جا بجا یہ بَورڈ لگے ہوئے ہیں ’’ مدد گار پولیس فون نمبر15 ‘‘ ہر ایک یہ جانتا ہے کہ پولیس چوروں ڈاکوؤں وغیرہ سے بچانے ، دشمنوں کے خطروں اور دیگر مشکل موقعوں پر مشکلکشائی یعنی مدد کرنے کی صلاحِیَّت رکھتی ہے۔ مکّۃُ المکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے
ہجرت کر کے جوصَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان مدینۃُ المنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً پہنچے ، وہاں اُن کی نُصرت (یعنی مدد) کرنے والے صَحابہ عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ’’ اَنصار ‘‘ کہلائے اور انصار کے معنیٰ مدد گار ہیں۔ اِس کے علاوہ بھی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں تو جب پولیس مُشکلِکشا ، سماجی کارکُن حاجت روا، چوکیدار مددگار اور قاضی فریاد رس ہو سکتا ہے ، تو اَللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کی عطا سے حضرتِ مولیٰ علی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کیوں مُشکلکُشا نہیں ہو سکتے!
کہہ دے کوئی گھیرا ہے بلاؤں نے حسن ؔ کو
اے شیر خدا بہر مدد تیغ بکف جا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد