اَتَوَسَّلُ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَّبِیِّ الرَّحْمَۃِط یَامُحَمَّدُ [1] ؎ اِنِّیْ تَوَجَّھْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ھٰذِہٖ لِتُقْضٰی لِیْ ط اللھُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیّط اے اللہ (عَزَّوَجَلَّ) میں تجھ سے سُوال کرتا ہوں اور توسُّل (یعنی وسیلہ پیش) کرتا ہوں اور تیری طرف مُتوجِّہ ہوتا ہوں تیرے نبی محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے ذَرِیعے سے جو نبیِّ رَحمت ہیں۔ یَامُحَمَّد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ! میں حُضُور کے ذَرِیعے سے اپنے ربّ (عَزَّوَجَلَّ) کی طرف اپنی حاجت کے بارے میں مُتوجِّہ ہوتا ہوں تاکہ میری حاجت پوری ہو۔یا اللہ! ان کی شَفاعت میرے حق میں قَبول فرما۔حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’ خدا (عَزَّوَجَلَّ) کی قسم ! ہم اُٹھنے بھی نہ پائے تھے ، باتیں ہی کر رہے تھے کہ وہ ہمارے پاس آئے گویا کبھی نابینا ہی نہیں تھے! ‘‘ (بہار شریعت ج۱ص۶۸۵، ابنِ ماجہ ج ۲ ص ۱۵۶ حدیث ۱۳۸۵، تِرمذی ج۵ص۳۳۶حدیث۳۵۸۹، اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر ج ۹ ص ۳۰ حدیث ۸۳۱۱ )
’’ یارسولَ اللہ ‘‘ والی دعا کی بَرَکت سے کام بن گیا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اِس حدیثِ مبارکہ سے دُور سے ’’ یا رسول اللہ ‘‘ کہنے کی اجازت ثابِت ہوتی ہے کیونکہ اُن صحابی نے الگ سے کسی کونے میں جا کر چُپکے چُپکے ہی ’’ یا رسول اللہ ‘‘ پکارا ہے! اور حق یہ ہے کہ یہ اجازت اُس ’’ نابینا صَحابی ‘‘ کیلئے مخصوص نہ تھی بلکہ بعدِ وفات ظاہِری تاقِیامِ قِیامت اِس کی بَرَکتیں موجود ہیں ۔حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے امیرُ المؤمنین ، جامِع القراٰن حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن عَفَّان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانۂ خلافت میں یہی دُعا ایک صاحبِ حاجت کو بتائی۔ ’’ طَبَرانی ‘‘ میں ہے: ایک شخص اپنی کسی ضرورت کو لے کر حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن حُنَیفرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمتِ اَقدَس میں حاضِرہواآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : وُضُو کرو پھر مسجِد میں دورَکْعت نَماز ادا کرو پھر یہ دعا مانگو: (یہاں وُہی دعا بتائی جو ابھی حدیثِ پاک میں صفحہ64پر گزری) اور (فرمایا:اس دعا کے آخِری لفظ) حَاجَتِیْ کی جگہ اپنی حاجت کا نام لینا۔وہ آدَمی چلا گیا اور جیسا اس کو کہا گیا تھا اس نے ویساہی کیااور اس کی حاجت پوری ہوگئی۔ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیر ج۹ص۳۰ حدیث۸۳۱۱ مُلَخَّصاً)
حضرتِ سیِّدُنا امام بخاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِیکے محترم استاد حضرت امام ابنِ ابی شَیبہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں : امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمرفاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے دورِ خلافت میں قَحط سالی ہوئی، ایک صاحِب حضورِ انور، محبوبِ ربِ اکبر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے روضۂ اطہر پر حاضِر ہوئے اور عرض کی: ’’ یَارَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! اپنی امّت کیلئے بارِش طلب فرمایئے، کہ لوگ ہلاک ہو رہے ہیں ۔ ‘‘ جنابِ رسالتِ مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُن صاحِب کے خواب میں تشریف لا کر ارشاد فرمایا: عمر کے پاس جا کر میرا سلام کہو اور ان کو خبر دو کہ بارش ہو گی۔ (مُصَنَّف ابن اَبی شَیْبہ ج ۷ ص ۴۸۲ حدیث۳۵مختصراً) وہ صاحِب صحابیِ رسول حضرتِ سیِّدُنا بلال بن حارث رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے۔حضرتِ سیِّدُنا امام ابنِ حجر عسقلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے فرمایا: یہ روایت امام ابنِ ابی شَیبہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے صحیح اَسناد کے ساتھ بیان کی ہے ۔ (فَتحُ الباری ج ۳ ص۴۳۰تَحتَ الحدیث۱۰۱۰)
غم و آلام کا مارا ہوں آقا بے سہارا ہوں
مری آسان ہو ہر ایک مشکل یارسولَ اللہ! (وسائلِ بخشِش ص۱۳۴ )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
[1] اس دعا کا وظیفہ کرتے وقت’’یَا محمد‘‘صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کہنے کے بجائے یا رسولَ اللّٰہ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کہنا ہے۔اس کے دلائل فتاوٰی رضویہ جلد30رسالہ’’تجلی الیقین ‘‘ صفحہ 156تا 157پرمُلاحظہ کیجئے۔