شرحِ کلامِ رضاؔ: اے ہجرت کی رات سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مبارَک بچھونے پر لیٹنے والے ! اے ایسے سخت امتحان کے لمحات میں شَہَنْشاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرجان کا نذرانہ حاضِر کرنے والے! میری اِمداد فرمایئے۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! مولیٰ مُشکِل کُشا شیرِ خداکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے اپنے ربِّ عظیمعَزَّوَجَلَّکے فضلِ عَمِیْم سے کس طرح اپنے غلام کا کٹا ہوا بازو جوڑ دیا! بے شک ربِّ کائناتعَزَّوَجَلَّ اپنے مقبول بندوں کو طرح طرح کے اِختیارات سے نوازتا ہے اوراُن سے ایسی باتیں صادِر ہوتی ہیں جنہیں انسانی عقلیں سمجھنے سے قاصِر ہوتی ہیں۔بعض اوقات شیطان کے وَسوَسے میں آکر بعض نادانکرامات کو عَقْل کے ترازو میں تولنے لگتے ہیں اوریوں گمراہ ہو جاتے ہیں۔ یادرکھئے ! کرامت کہتے ہی اُس خِرْقِ عادت بات کو جو عادتاً مُحال یعنی ظاہِری اسباب کے ذَرِیعے اُس کا ظاہَر ہونا ممکِن نہ ہو۔ دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 1250 صَفْحات پر مشتمل کتاب ، ’’ بہارِ شریعت‘ ‘ جلد اوّل صَفْحَہ 58پر صدرُ الشَّریعہ ، بدرُ الطَّریقہحضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : نبی سے قبل از اعلانِ نُبُوَّت ایسی چیزیں ظاہِر ہوں توان کو اِرہاص کہتے ہیں اور اعلانِ نُبُوَّت کے بعد صادِر ہوں تو مُعجِزَہ کہتے ہیں ، عام مؤمِنین سے اگر ایسی چیزیں ظاہر ہوں تو اسے مَعُونَت اورولی سے ظاہر ہوں تو کرامت کہتے ہیں نیز کافِر یا فاسِق سے کوئی خِرْق عادت ظاہر ہوتو اسے اِستِدْراج (اِس۔تِد۔راج) کہتے ہیں۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص۵۸ مُلَخَّصاً)
عَقْل کو تنقید سے فرصت نہیں
عِشق پر اَعمال کی بنیاد رکھ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ایک مرتبہ نہرِ فُرات میں ایسی خوفناک طُغیانی آگئی (یعنی طوفان آگیا) کہ سَیلاب میں تمام کھیتیاں غَرقاب ہو (یعنی ڈوب) گئیں لوگوں نے حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی، شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی بارگاہِ بیکس پناہ میں فریاد کی ۔ آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے اوررَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا جُبَّۂ مبارَکہ وعِمامۂ مُقَدَّسہ و چادر مبارَکہ زیب تن فرما کر گھوڑے پر سوار ہوئے، حضراتِ حَسَنَینِ کریمینرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَااوردیگر کئی حَضْرات بھی ہمراہ چل پڑے ۔فُرات کے کَنارے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے دو رَکْعت نَماز ادا کی، پھرپُل پر تشریف لا کراپنے عَصا سے نَہر فُرات کی طرف اشارہ کیا تو اُس کا پانی ایک گز کم ہوگیا، پھر دوسری مرتبہ اشارہ فرمایا تو مزید ایک گز کم ہو ا جب تیسری بار اشارہ کیا تو تین گز پانی اُتر گیا اور سیلاب ختم ہوگیا۔ لوگوں نے التجا کی: یا امیرُ الْمُؤْمِنِین! بس کیجئے یِہی کافی ہے ۔ (شواہدُ النّبوۃ ص۲۱۴)
شاہِ مرداں شیرِ یزداں قوّتِ پروَرْدگار
لا فتٰی اِلاَّ علی، لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالْفِقار
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد