علی جیسا کوئی بہادُر نہیں
امیرُ الْمُؤْمِنِین حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی، شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کا ایک نُمایاں ترین وَصْف (یعنی خوبی) شُجاعت وبہادُری ہے اور اس بہادری کو غیبی تائید بھی حاصل ہے جیسا کہ ایک رِوایت میں ہے: جب امیرُ الْمُؤْمِنِین، حضرتِ سیِّدُناعلیُّ المُرتَضٰی ، شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ایکغزوہ میں کُفّارِ بد ا َطوار کو گاجر مُولِی کی طرح کاٹ رہے تھے تو غیب سے یہ آوازآئی: ’’ لَا سَیْفَ اِلَّا ذُوالْفِقَارِ وَلَا فَتٰی اِلَّا عَلِیٌّیعنی علی جیسا کوئی بہادُر نہیں اور ذوالفقار جیسی کوئی تلوار نہیں۔ ‘‘ (جزء الحسن بن عرفۃ العبدی ص ۶۲ حدیث ۳۸ ماخوذاً)
ہیں علی مُشکِل کُشا سایہ کُناں سر پرمِرے
لَا فَتٰی اِلَّاعَلِی، لَا سَیْفَ اِلاَّ ذُوالْفِقَار (وسائلِ بخشش ص ۴۰۰)
لُعاب و دعائے مصطَفٰے کی بَرَکتیں
حضرتِ سیِّدُناعلیُّ المُرتَضٰی ، شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں کہ سلطانِ زَمان و زَمَن ، محبوبِ ربِّ ذُوالمنَنصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا لُعابِ دَہَن لگنے کے بعد میری دونوں آنکھیں کبھی نہ دُکھیں۔ (مسندامام احمدبن حنبل ج۱ص۱۶۹حدیث۵۷۹) حضرت مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم گرمیوں میں گرم کپڑے اور سردیوں میں ٹھنڈے کپڑے پہنتے تھے، کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ جب جنابِ رسالت مآبصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے میری آنکھوں میں اپنے منہ مبارَک سے لُعاب لگایا تو ساتھ میں یہ دُعا بھی دی : ’’ اَللّٰہُمَّ اَذْہِبْ عَنْہُ الْحَرَّ وَالْبَرْدَ۔یعنی اے االلہ! علی سے گرمی اور سردی دُورفرما دے۔ ‘‘ اُس دن سے مجھے نہ گرمی لگتی ہے اور نہ ہی سردی۔ (اِبن ماجہ ج ۱ ص ۸۳ حدیث ۱۱۷)
اِجابت کا سہرا عنایت کا جوڑا
دُلہن بن کے نکلی دعائے محمد (حدائق بخشش شریف)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مولائے کائنات ، مولیٰ مشکلکشا، علیُّ المُرتَضٰی، شیرِخدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اِس قدر بہادُر ہونے کے باوُجُود تکبُّر، ریا کاری اور خودنُمائی وغیرہ ہر طرح کے رَذائل سے پاک اورپیکرِعَمَل واِخلاص تھے جیسا کہ حضرت عَلَّامہعلی قاریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِیفرماتے ہیں : ’’ حضرتِ سیِّدُنا علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے جہاد میں ایک کافر کو پَچھاڑا اور اُسے قتل کے اِرادے سے اُس کے سینے پر بیٹھے، اُس نے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم پر تھوک دیا ، آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اُسے چھوڑ دیا، سینے سے اُٹھ گئے۔ اُس نے وجہ پوچھی تو آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا کہ تیری اِس حَرَکت سے مجھے غصّہ آگیا، اب تیرا قتْل نفسانی وجہ سے ہوتا نہ کہ اِیمانی وجہ سے، اِس لیے میں نے تجھے چھوڑ دیا، وہ آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کا یہ اِخلاص دیکھ کر مسلمان ہوگیا۔ ‘‘
(مِرقاۃُ المَفاتیح ج۷ ص۱۲تَحتَ الحدیث۳۴۵۱)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھاآپ نے کہ حیدرِ کَرّار وصاحِبِ ذُوالفِقار امیرُ المؤمنین، مولیٰ مشکل کُشاحضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی ، شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے اِخلاص کی بَرَکت سے یہودی کو اسلام جیسی عظیم ُ الشّان نعمت نصیب ہوگئی، اِسی طرح ہمارے دیگر اَسْلاف کِرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام بھی ہَمَہ وقْت اپنے نیک اعمال کو جانچتے رہتے کہ یہ عَمَل کہیں دوسروں کو دِکھانے کے لئے تو نہیں ! اگر کسی نیک عَمَل میں نفس و شیطان کی مُداخَلَت یا ریاکاری کا تھوڑا سا بھی شائبہ محسوس فرماتے تو فوراً اُس سے بچنے بلکہ بسا اَوقات تو اُس عَمَلِ صالح کو دوبارہ کرنے کی