قید سے چھوٹے وہ اپنے گھر گئے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سُوال (9) : میں حنفی ہوں ، یہ بتا دیجئے کیا میرے امام، امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے بھی کبھی غیرُ اللہ سے مدد مانگی ہے؟
جواب:کیوں نہیں ۔ کروڑوں حنفیوں کے پیشواحضرتِ سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ بارگاہ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں مدد کی درخواست کرتے ہوئے ’’ قصیدۂ نُعمان ‘‘ میں عرض کرتے ہیں : ؎
یَا اَکْرَمَ الثَّقَلَیْنِ یَا کَنْزَ الْوَرٰی جُدْ لِیْ بِجُوْدِکَ وَاَرْضِنِیْ بِرِضَاکَ
اَنَا طَامِعٌ بِالْجُوْدِ مِنْکَ لَمْ یَکُنْ لِاَبِیْ حَنِیْفَۃَ فِی الْاَنَامِ سِوَاکَ
یعنی اے جنّ وانس سے بہتر اورنعمتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے خزانے ! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جو آپ کو عنایت فرمایا ہے اُس میں سے مجھے بھی عطا فرمائیے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کو جو راضی کیا ہے آپ مجھے بھی راضی فرمائیے۔میں آپ کی سخاوت کا امیدوار ہوں ، آپ کے سوا ابوحنیفہؔ کا مخلوق میں کوئی نہیں ۔
(قصیدۂ نعمانیہ مع الخیرات الحسان ص ۲۰۰)
پڑے مجھ پر نہ کچھ افتاد یاغوث
مدد پر ہو تری امداد یاغوث (ذوق نعت)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
’’ یا علی مدد ‘‘ کہنے کا ثُبُوت
سُوال (10) : ’’ یا علی مدد ‘‘ کہنے کی صَراحت کے ساتھ اگر دلیل مل جائے تو مدینہ مدینہ۔
جواب:پچھلے صَفْحات پر غیرِ خدا سے اُس کی ظاہِری حیات اور بعدِ مَمات مدد مانگنے کے دلائل گزرے۔ تاہم صَراحَۃً ’’ یا علی مدد ‘‘ کہنے کی دلیل بھی مُلاحَظہ ہو چُنانچِہمیرے آقااعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِسنّت ، مجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ جلد 9 صَفْحَہ821تا 822 پر لکھتے ہیں : ’’ شاہ محمد غوث گَوالیاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْبَارِیکی کتاب ’’ جَواہِر خَمسہ ‘‘ جس کے وظائف کی جَیِّد وبُزُرْگ اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے اجازَتیں دِیں جن میں شاہ ولیُّ اللہ مُحدِّث دِہلوی بھی شامل ہیں ، اِس کتاب میں ہے، ’’ نادِ علی َہفْت بار یاسَہ بار یایک بار بخوانْدہ و آں اِیں اَسْت ۔ یعنی سات بار ، یا تین بار ، یا ایک بار نادِ علی پڑھے، اور وہ یہ ہے: نَادِ عَلِیًّا مَّظْھَرَ الْعَجَائِبِ تَجِدْہُ عَوْنًا لَّکَ فِی النَّوَائِبِ کُلُّ ھَمٍّ وَّغَمٍّ سَیَنْجَلِیْ بِوِلَایَتِکَ یَاعَلِیُّ یَاعَلِیُّ یَاعَلِیُّ ترجمہ:حضرت علی کو پکار جو عجائب کے مَظْہر ہیں انہیں تمام مصیبتوں میں اپنا مددگا ر پائے گا، ہر رنج وغم دُور ہو جائے گا، آپکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکی ولِایت سے ، یا علی ، یا علی، یا علی۔ (جَواہرِ خمسہ مُتَرجَم ص۲۸۲، ۴۵۳)
اگر ’’ یا علی ‘‘ کہنا شِرْک ہو تو۔۔۔۔۔
اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہمزید فرماتے ہیں :اگر مولا علی کو مُشکِل کُشا ماننا، مصیبت کے وَقت مددگار جاننا، ہنگامِ (یعنی وقتِ) غم وتکلیف اُس جناب کونِدا کرنا، یا علی یا علی کا دم بھرنا شِرْ ک ہو تومَعَاذَ اللہیہ سارے اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کُفاّر ومُشرِکین ٹھہریں اور سب سے بڑھ کر بھاری مشرِککٹَّر کافر عِیاذاًبِاللہ (یعنیاللہ عَزَّوَجَلَّ کی پناہ) شاہ ولیُّ اللہ ہوں جو مشرِکوں کو اولیاءُ اللہ جانتے ۔۔۔۔۔۔ اَلْعِیَاذُ بِاللہِ رَبِّ