{۲} ’’ اَنَا دَارُالْحِکْمَۃِ وَعَلِیٌّ بَابُھَا یعنی میں حکمت کا گھر ہوں اورعلی اس کا دروازہ ہیں۔ ‘‘ (تِرمذی ج۵ ص۴۰۲ حدیث۳۷۴۴)
مولٰی علی کی شان بَزَبانِ نبیِّ غیب دان
مولیٰ مُشکل کُشا حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم رِوایت کرتے ہیں کہ رسولِ اَکرم، نبیِّ مُحْتَشم، تاجدارِ اُمَمصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے (مجھے مُخاطب کرتے ہوئے) اِرشاد فرمایا: ’’ تم میں ( حضرتِ) عیسیٰ ( عَلیْہِ السَلَام ) کی مثال ہے، جن سے یَہود نے بُغض رکھا حتّٰی کہ اُن کی والِدۂ ماجِدہ کوتُہمت لگائی اور اُن سے عیسائیوں نے مَحَبّت کی تو اُنہیں اُس دَرَجے میں پہنچا دیا جو اُن کا نہ تھا۔ ‘‘ پھر شیرِخداحضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اِرشاد فرمایا: ’’ میرے بارے میں دو قسْم کے لوگ ہلاک ہوں گے میری مَحَبّت میں اِفراط کرنے (یعنی حد سے بڑھنے) والے مجھے اُن صفات سے بڑھائیں گے جو مجھ میں نہیں ہیں اور بُغض رکھنے والوں کا بُغض اُنہیں اِس پر اُبھارے گا کہ مجھے بُہتان لگائیں گے۔ ‘‘ (مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج۱ص۳۳۶حدیث۱۳۷۶)
تَفْضِیل کا جَویا نہ ہو مولا کی وِلا میں
یوں چھوڑ کے گوہر کو نہ تُو بہرِ خَذَف جا (ذوقِ نعت)
یعنی حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی مَحَبَّت میں اِتنا نہ بڑھ کہ آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کوشَیخَینِ کریمینرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا پر فضیلت دینے لگے ! ایسی بھول کر کے موتیوں جیسے صاف شَفّاف عقیدے کو چھوڑ کرٹِھیکریوں جیسا رَدّی عقیدہ اِختیار نہ کر۔
مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان اِس حدیثِ مبارَکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’ مَحَبَّتِ علیُّ (المُرتَضٰیکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم) اَصلِ اِیمان ہے۔ ہاں ! مَحَبَّت میں ناجائز اِفراط (یعنی حد سے بڑھنا) بُرا ہے مگر عداوت ِعلی اصْل ہی سے حرام بلکہ کبھی کُفر ہے۔ ‘‘ (مراٰۃ المناجیح ج۸ص۴۲۴)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
علیُّ المرتَضیٰ شیرِ خدا ہیں
کہ اِن سے خوش حبیبِ کِبریا ہیں
فقیہِ اُمّت حضرتِ سیِّدُناعبد اللہبن مسعو درَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : امیرُ الْمُؤْمِنِین حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی، شیرِ خداکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ایسے عالِم ہیں جن کے پاس ظاہِر و باطِن [1]؎ دونوں کا علْم ہے۔ (اِبن عَساکِرج۴۲ ص۴۰۰)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
’’ علی ‘‘ کے 3 حُرُوف کی نسبت سے مولا علی کے مزید 3فضائل
امیرُ الْمُؤْمِنِین، خلیفۃُ المسلمین، امام العادِلین حضرتِ سیِّدُناعُمَرفاروقِ اَعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اِرشاد فرماتے ہیں : فاتِحِ خیبر، حیدرِکرّار، صاحبِ ذُوالفِقار حضرتِ علیُّ المُرتَضٰی، شیرِ خداکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکو 3 ایسی فضیلتیں حاصل ہیں کہ اگر اُن میں سے ایک بھی مجھے نصیب ہو
[1] ظاہری مراد اِس کا لفظی ترجمہ ہے باطِنی مراد اِس کا منشاء اور مقصد یا ظاہر شریعت ہے اور باطن طریقت یا ظاہر اَحکام ہیں اور باطن اَسرار یا ظاہر وہ ہے جس پر علماء مطَّلَع ہیں اور باطن وہ ہے جس سے صوفیائے کرام خبردار ہیں یا ظاہر وہ جو نقْل سے معلوم ہو باطن وہ جو کشْف سے معلوم ہو۔(مِراٰۃُالمناجیح ج۱ص۲۱۰)