کرامات شیر خدا

عثمانِ غنی رضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی شہادت کے بعد اَنصار ومُہاجِرین نے دَستِ بابَرَکت پر بَیْعَت  کر کے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو امیرُ الْمُؤْمِنِین مُنْتَخَب کیا اور 4برس 8ماہ 9دن تک مسندِ خِلافت پر رونق افروز رہے ۔ 17 یا 19 رَمَضانُ المبارَک کو ایک خبیث خارِجی کے قاتِلانہ حملے سے شدید زخمی ہو گئے اور 21رَمَضان شریف یک شنبہ  (اتوار)  کی رات جامِ شہادت نوش فرما گئے ۔  (تاریخ الْخُلَفاء ص۱۳۲،  اسد الغابۃ ج۴ ص۱۲۸،  ۱۳۲،  ازالۃ الخفاء ج۴ص۴۰۵،  معرفۃ الصحابۃ ج۱ص۱۰۰وغیرہ )

اصلِ نسلِ صَفا وجہِ وصْلِ خدا

بابِ فضلِ وِلایَت پہ لاکھوں  سلام  (حدائقِ بخشش شریف)

        شرح کلامِ رضا: حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم خالِص پاک سادات کی جڑاور بُنیاد ہیں ،  واصِل بِاللہ ہونے  (یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کا مقرَّب بننے)  کا سبب اور فضائلِ وِلایَت ملنے کا دروازہ ہیں ،  آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم پر لا کھوں  سلام ہوں۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

 ’’ کَرَّمَ اللہُ  وَجْہَہُ الْکَرِیْم ‘‘ کہنے لکھنے کا سبب

       جب قُریش مبتَلائے قَحْطہوئے تھے توحُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ابوطالِب پرتخفیفِ عِیال (یعنی بال بچّوں  کا بوجھ ہلکا کرنے)  کے لئے حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو اپنی بارگاہِ ایمان پناہ میں لے آئے،  حضرت مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے حُضور مولائے کُل سیِّدُالرُسُل صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کےکِنارِ اقدس (یعنی آغوش مبارَک)  میں  پَروَرِش پائی، حُضُو ر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گود میں  ہوش سنبھالا،  آنکھ کُھلتے ہی محمّدٌ رَّسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاجمالِ جہاں  آرا دیکھا،  حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کی باتیں  سنیں  ،  عادتیں  سیکھیں۔ تو جب سے اِس جنابِ عِرفان مآب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو ہوش آیا قَطْعًایقیناًربّ عَزَّوَجَلَّ کو ایک ہی جانا ،  ایک ہی مانا۔ ہرگز ہرگز بُتوں  کی نَجاست سے ان کا دامنِ پاک کبھی آلودہ نہ ہوا۔اسی لئے لَقَبِ کریم  ’’ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ  ‘‘  ملا۔  (فتاوی رضویہ ج ۲۸ ص۴۳۶)  10برس کی عمر میں  شجرِ اسلام کے سائے میں  آ گئے،  نبیِّ کریم، رء ُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سب سے لاڈلی شہزادی حضرتِ سیِّدَتُنا فاطِمَۃُ الزَّھرَاء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہی کی زَوجِیّت میں  آئیں۔ بڑے شہزادے حضرتِ سیِّدنا امام حَسَن مُجتَبٰی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی نسبت سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی کُنْیَت  ’’ اَبُوالحَسَن ‘‘  ہے اور مدینے کے سلطان،  سردارِ دوجہان،  رحمتِ عالمیان،  سرورِ ذیشان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو  ’’ ابُو تُراب  ‘‘  کُنیْت عطا فرمائی ۔ (تاریخ الخلفاء ص۱۳۲)  حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی،  شیرِخدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو یہکُنْیَت  اپنے اصلی نام سے بھی زیادہ پیاری تھی۔  (بُخاری ج۲ ص ۵۳۵حدیث۳۷۰۳)

 ’’  ابو تُراب ‘‘  کُنیت کب اور کیسے ملی!

   حضرتِ سیِّدُناسَہْل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں : حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی، شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم ایک روزشہزادیٔ کونین حضرتِ سیِّدَتُنا فاطِمَۃُ الزَّھرَاء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے پاس گئےاور پھر مسجِد میں  آکر لیٹ گئے۔ (ان کے جانے کے بعد)  تاجدارِ مدینۂ منوّرہ،  سلطان مکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  (گھر تشریف لائے اور)  بی بی فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے اُن کے بارے میں پوچھا۔ انہوں  نے جواب دیا کہ مسجِد میں  ہیں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَتشریف لے گئے اورمُلاحَظہ فرمایاکہ ( حضرتِ)  علی  (کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم) پر سے چادرہٹ گئی ہے،  جس کی وجہ سے پیٹھ، مِٹّی سے آلودہ ہے۔ رسولِ کریم عَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلٰوةِ وَالتَّسْلِيْمان کی پیٹھ سے مِٹّی جھاڑ نے

Index