کرامات شیر خدا

آپکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے حکم دیا کہ اُس شخص کو میرے پاس لاؤ ۔ اِس شخص کی ایک کروٹ چونکہ فالج زدہ تھی لہٰذا زمین پر گھسٹتا ہوا حاضِر ہوا،  آپ  کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے اُس کا واقِعہ دریافت فرمایا تو اُس نے عرض کی:یا امیرَالمؤمنین ! میں  گناہوں  کے مُعامَلے میں  نہایت بے باک تھا، میرے والدِ محترم جو کہ ایک نیک و صالِح مسلمان تھے، مجھے باربار ٹوکتے اور گناہوں  سے روکتے تھے ،  ایک دن والِدِ ماجد کی نصیحت سے مجھے غصّہ آ گیا اور میں نے ان پر ہاتھ اُٹھادیا! میر ی مار کھا کر وہ رنج وغم میں  ڈوبے ہوئے حرمِ کعبہ میں آئے اور انہوں  نے میرے لئے بد دُعا کردی، اُس دعاکے اثر سے اچانک میری ایک کَروٹ پر فالِج کا حملہ ہوگیااورمیں  زمین پر گِھسٹ کر چلنے لگا۔ اِس غیبی سزاسے مجھے بڑی عِبرت حاصل ہوئی اورمیں  نے روروکر والدِ محترم سے مُعافی مانگی،  انہوں  نے شفقتِ پِدری سے مغلوب ہوکر مجھ پر رَحم کھایا اور مُعاف کردیا۔پھر فرمایا: ’’ بیٹا چل!  میں  نے جہاں  تیرے لیے بد دعا کی تھی وہیں  اب تیرے لئے صِحّت کی دُعا مانگوں  گا۔ ‘‘  چُنانچِہ ہم باپ بیٹے اُونٹنی پرسُوا ر ہو کر مکۂ معظمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًآرہے تھے کہ راستے میں  یکایک اُونٹنی  بِدک کر بھاگنے لگی اور میرے والدِ ماجد اُس کی پیٹھ پر سے گر کر دوچَٹانوں  کے درمیان وفات پاگئے۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَاب میں  اکیلا ہی حرمِ کعبہ میں  حاضِرہوکر دن رات رو رو کر خداتعالیٰ سے اپنی تندُرُستی کے لیے دعائیں  مانگتارہتاہوں۔ امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ شیرِ خداکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکواس کی داستانِ عبرت نشان سن کر اس پر بڑا رَحْم آیا اور فرمایا: اے شخص ! اگر واقِعی تمہارے والد صاحِب تم سے راضی ہو گئے تھے تو اطمینان رکھو اِنْ شَآءَ اللہ سب بہتر ہو جائے گا،  پھر آپکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمنے چند رَکْعت نَماز پڑھ کر اُس کیلئے دعائے صِحّت کی پھرفرمایا : ’’ قُمْ! یعنی کھڑا ہو!  ‘‘ یہ سنتے ہی وہ بِلاتکلُّف اُٹھ کر کھڑا ہوگیا اورچلنے پھرنے لگا۔    (مُلَخَّص ازحجۃُ اللہ علَی العالمین ص۶۱۴)

کیوں  نہ مشکلکشا کہوں  تم کو

تم نے بگڑی مِری بنائی ہے

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اولادِ علی کے ساتھ حُسنِ سُلوک کا بدلہ

        ابوجعفر نامی ایک شخص کوفہ میں  رہتاتھا، لین دین کے مُعامَلے میں  وہ ہر ایک کے ساتھ حُسنِ سُلُوک سے پیش آتا تھا، بِالخصوص اولادِ علی کاکوئی فرد اس کے یہاں  کچھ خریداری کرتا تو وہ جتنی بھی کم قیمت ادا کرتا قبول کر لیتا ورنہ حضرتِ مولیٰ علی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے نام قرض لکھ دیتا ۔ گردِشِ دَوراں  کے باعِث وہ مُفلِس ہو گیا۔ ایک دن وہ گھر کے دروازے پر بیٹھا تھا کہ ایک آدَمی اُدھر سے گزرا ،  اور اُس نے مذاق اُڑاتے ہوئے کہا:  ’’ تمہارے بڑے مقروض  (یعنی حضرتِ مولیٰ علی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم)  نے قرضہ اد اکیا یا نہیں  ؟  ‘‘  اُس کو اِس طنز کا سخت صدمہ ہوا۔رات جب سویا تو خواب میں  جنابِ رسالت مآب  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زِیارت سے شَرَفْیاب ہوا، حَسَنَینِ کریمین (یعنی حسن و حُسین)  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَابھی ہمراہ تھے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے شہزادگان سے دریافت کیا: تمہارے والد صاحِب کا کیا حال ہے؟  حضرتِ مولیٰ علی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم  نے پیچھے سے جواب دیا: یَا رَسُوْلَ اللہ! میں  حاضِر ہوں  ۔ارشاد ہوا:  ’’ کیا وجہ ہے کہ اِس کا حق ادا نہیں  کرتے ؟  ‘‘  انہوں  نے عَرْض کی : یَا رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! میں  رقم ہمراہ لایا ہوں۔ فرمایا: اس کے حوالے کر دو ۔ حضرتِ مولیٰ علی شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے ایک اُونی تھیلی ان کے حوالے کر دی اور فرمایا: ’’  یہ تمہارا حق ہے۔ ‘‘ رسولِ مکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’  اِسے وصول کر لو اور اس کے بعد بھی ان کی اولاد میں  سے جو قرض لینے

Index