اُس مُبارَک جماعت پہ لاکھوں سلام (حدائقِ بخشش شریف)
فقیہِ اُمّت حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ، فیض گنجینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالی شان ہے: ’’ اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَاَبُوْبَکْرٍ اَسَاسُہَا وَعُمَرُ حِیْطَانُہَا وَعُثْمَانُ سَقْفُہَا وَعَلِیٌّ بَابُہَایعنی میں علْم کا شہر ہوں ، ابوبکْر اس کی بنیاد، عُمَر اس کی دیوار، عثمان اُس کی چھت اور علی اس کادروازہ ہیں۔ ‘‘ (مُسندُ الفردوس ج۱ ص۴۳ حدیث۱۰۵)
ترے چاروں ہم دم ہیں یک جان یک دل
ابوبکر فاروق عثماں علی ہے (حدائقِ بخشش شریف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
امیرُ الْمُؤْمِنِین حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المُرتَضٰی، شیرِخدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے فرمایا: رسولِ کریم ، رَء ُوْفٌ رَّحیمعَلَيْهِ أَفْضَلُ الصَّلٰوةِ وَالتَّسْلِيْم کے بعد سب سے بہتر ابوبکر وعمر ہیں پھر فرمایا: ’’ لَا یَجْتَمِعُ حُبِّیْ وَبُغْضُ اَبِیْ بَکْرٍ وَّعُمَرَ فِیْ قَلْبِ مُؤْمِنٍیعنی میری مَحَبّت اور (شَیْخَیْنِ جَلِیْلَیْن) ابو بکْر و عُمَر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کا بُغْض کسی مؤمن کے دل میں جَمْعْ نہیں ہو سکتا۔ ‘‘ (اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط لِلطّبَرانی ج۳ص۷۹ حدیث۳۹۲۰)
کبھی بھی پیاس نہ لگنے کا انوکھا راز
جولوگ ’’ دما دم مست قلندر علی دا پہلا نمبر ‘‘ والا نظریہ رکھتے ہیں ، سخت خطا پر ہیں ، اُن کی فَہمائش کیلئے ایک ایمان افروز حکایت پیش کی جاتی ہے ، پڑھیں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ توفیق بخشے تو قبولِ حق کریں چُنانچِہ حضرت ِسیِّدُناشیخ ابو محمد عبدُاللہ مُہْتَدِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں: اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ میں نے حج کی سعادت حاصِل کی۔ حرم شریف میں ایک شخص کے بارے میں سنا کہ یہ پانی نہیں پیتا ! مجھے بڑا تعجب ہوا، میں نے اُس سے ملکر اِس کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا: میں ’’ حِلّہ ‘‘ کا باشندہ ہوں ، ایک رات میں نے خواب میں قِیامت کا ہوشرُبا منظر دیکھا اور شدّتِ پیاس سے خود کو بے تاب پایا اور کسی طرح حُضُورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حوض مبارَک پر پہنچ گیا، وہاں حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صدِّیق ، حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم ، حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی اور حضرت مولیٰ علی شیرِ خدا عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو پایا، یہ حضرات لوگوں کو پانی پلا رہے تھے۔ میں حضرت مولیٰ علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی خدمت میں حاضِر ہوا کیوں کہ مجھے ان پر بڑا ناز تھا، میں ان سے بَہُت مَحَبَّت کرتا تھا اور تینوں خُلَفاء سے انہیں افضل جانتا تھا، مگر یہ کیا ! آپ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے مجھ سے چہرۂ مبارَک ہی پھیر لیا ! چونکہ پیاس بَہُت زیادہ لگی تھی میں باری باری اُن تین خُلَفاء کے پاس بھی گیا ، ہر ایک نے مجھ سے اِعراض کیا یعنی اپنا مبارَک منہ پھیر لیا ۔ اتنے میں میری نظر مدینے کے تاجور ، سلطانِ بحر و بر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر پڑی ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہِ انور میں حاضِر ہو کر میں نے عرض کی : یَارَسُوْلَ اللہِ! مولیٰ علی نے مجھے پانی نہیں پلایا ، بلکہ اپنا منہ ہی پھیر لیا ۔ ارشاد ہوا : وہ تمہیں پانی کیسے پلائیں ! تم تو میرے صَحابہ سے بُغْض رکھتے ہو! یہ سن کر مجھے اپنے عقیدے کے غَلَط ہونے کا یقین ہو گیا اور میں نے بصد ندامت حُضُور تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دستِ مبارَک پر سچّی توبہ کی، سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے ایک پیالہ عنایت فرمایا جو میں نے پی لیا، پھر میری آنکھ کھل گئی۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ جب سے دستِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پیالہ پیا ہے ، مجھے بِالکل پیاس نہیں