اِس آیتِ مبارَکہ کے تحت صَدرُالشَّریعہ ، بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں : (حج میں ) تو ان باتوں سے نہایت ہی دُور رہنا چاہیے ، جب غصّہ آئے یا جھگڑا ہو یا کسی معصیت (یعنی نافرمانی ) کا خیال ہو فوراً سر جُھکا کر قلب کی طرف مُتَوجِّہ ہوکر اِس آ یت کی تِلاوت کرے اور دو ایک بار لا حول شریف پڑھے ، یہ بات جاتی رہے گی۔ یِہی نہیں کہ (خود) اِسی (یعنی حاجی) کی طرف سے ابتِدا ہو یا اس کے رُفَقا (ساتھیوں ) ہی کے ساتھ جِدال (یعنی جھگڑا ) ہو جائے بلکہ بعض اوقات امتحاناً راہ چلتوں کو پیش کر دیا جاتا ہے کہ بے سبب اُلجھتے بلکہ سَبّ وشَتم (یعنی گالی گلوچ) ولعن وطعن کو تیّار ہوتے ہیں ، اسے (یعنی حاجی کو) ہر وَقت ہوشیار رہنا چاہیے ، مَبادا (یعنی ایسا نہ ہو۔ خدا نہ کرے) ایک دو کلمے (یعنی جملوں ) میں ساری محنت اور روپیہ برباد ہو جائے۔ ( بہارِ شریعت ج۱ ص۱۰۶۱)
سنبھل کر پاؤں رکھنا حاجیو!راہِ مدینہ میں
کہیں ایسا نہ ہو سارا سفر بیکار ہو جائے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
حاجی کے لئے سرمایۂ عشق ضروری ہے:
خوش نصیب حاجِیو!حج کے لئے جس طر ح سرمایۂ ظاہِری کی ضَرورت ہے اُسی طرح سرمایۂ باطِنی یعنی سرمایہ عِشق ومحَبَّت کی بھی سخت حاجت ہے اور یہ سرمایہ عاشقانِ رسول کے یہاں ملتا ہے۔ حکایت: سرکارِ بغداد ، حُضُورِ غوثِ اعظم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہِ معظّم میں ایک صاحِب حاضِر ہوئے ، غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حاضِرین سے فرمایا: یہ ابھی ابھی بیتُ الْمقدَّس سے ایک قدم میں آئے ہیں تاکہ مجھ سے آدابِ عِشق سیکھیں ۔ (اخبار الاخیار ص۱۴ بِتَصَرُّفٍ) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
کسی عاشق رسول سے نسبت قائم کرلیجئے: سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ !ایک باکرامت وَلی بھی سرمایۂ عِشق کے حُصُول کی خاطِر اپنے سے بڑے وَلی کی بارگاہ میں حاضِری دیتا ہے پھر ہم تُو کس شُمار وقِطار میں ہیں ! لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ کسی عاشِقِ رسول سے نِسبت قائم کرکے اُس سے آدابِ عِشق سیکھیں اور پھر سفرِ مدینہ اِختِیار کریں ۔؎
پہلے ہم سیکھیں قرینہ پھر ملے مُرشِد سے سینہ
چل پڑے اپنا سفینہ اور پہنچ جائیں مدینہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیارے حاجیو!اب عاشقانِ رسول حاجیوں کی جذب و مستی بھری دوعجیب و غریب حکایات پڑھئے اورجھومئے:
حضرتِ سَیِّدُنا فُضَیل بن عِیاض رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : میدانِ عَرَفات میں حجّاج مَشغولِ دُعا تھے ، میری نظر ایک نوجوان پر پڑی جو سر جھُکائے شَرم سار کھڑا تھا ، میں نے کہا: اے نوجوان!تُو بھی دُعا کر۔ وہ بولا: مجھے تو اِس بات کا ڈَر لگ رہا ہے کہ جو وَقت مجھے مِلاتھا شاید وہ جاتا رہا ، اب کس مُنہ سے دُعا کروں !میں نے کہا: تُو بھی دُعا کر تاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھے بھی اِن دُعا مانگنے والوں کی بَرَکت سے کامیاب فرمائے۔ حضرت سَیِّدُنا فُضَیل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : اُس نے دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھانے کی کوشِش کی کہ ایک دَم اُس پر رِقَّت طاری ہوگئی اور ایک چیخ اُس کے مُنہ سے نکلی ، تڑپ کر گرا اور اُس کی رُوح قَفَسِ عُنصُری سے پرواز کر گئی۔ (کَشْفُ الْمَحْجُوب ص۳۶۳) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
حضرتِ سَیِّدُنا ذُوالنُّون مصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : میں نے مِنٰی شریف میں ایک نوجوان کو آرام سے بیٹھا دیکھا جب کہ لوگ قُربانیوں میں مَشغول تھے۔ اِتنے میں وہ پکارا: اے میرے پیارے اللہ عَزَّوَجَلَّ!تیرے سارے بندے قُربانیوں میں مَشغول ہیں ، میں بھی تیری بارگاہ میں اَپنی جان قُربان کرنا چاہتا ہوں ، میرے مالِک عَزَّوَجَلَّ !مجھے قَبول فرما۔یہ کہہ کراپنی اُنگلی گلے پرپَھیری اور تڑپ کر گرپڑا ، میں نے قریب جا کر دیکھا تو وہ جان دے چکا تھا۔ (کَشْفُ الْمَحْجُوب ص۳۶۴) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم
یہ اِک جان کیا ہے اگر ہوں کروڑوں
تِرے نام پر سب کو وارا کروں میں (سامانِ بخشش)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اپنے نام کے ساتھ ’’ حاجی ‘‘ لگانا کیسا ؟ :
محترم حاجیو!دیکھا آپ نے! حج ہو تو ایسا! اللہ عَزَّوَجَلَّ اِن دونوں بابَرَکت حاجیوں کے طُفیل ہمیں بھی رِقَّتِ قلبی نصیب فرمائے۔ یاد رکھئے!ہر عبادت کی قَبولِیَّت کے لئے اِخلاص شَرط ہے۔آہ! اب علمِ دین اور اَچّھی صُحبت سے دُوری کی بِنا پر اَکثر عبادات رِیاکاری کی نذرہوجاتی ہیں ۔ جس طرح اب عُمُوماً ہر کام میں نُمُود و نُمائش کا عمل دَخل ضَروری سمجھا جانے لگاہے اِسی طرح حج جیسی عظیم سَعادت بھی دِکھاوے کی بَھینٹ چڑھتی جارہی ہے ، مَثَلاً بے شُمارافراد حج ادا کرنے کے بعد اپنے آپ کو اپنے مُنہ سے بِلا کسی مَصلحت وضَرورت کے حاجی کہتے اور اپنے قلم سے لکھتے ہیں ۔ آپ شاید چونک پڑے ہوں گے کہ اِس میں آخِر کیا حَرَج ہے ؟ ہاں ! واقعی اِس صورت میں کوئی حَرَج بھی نہیں کہ لوگ آپ کو اپنی مرضی سے حاجی صاحِب کہہ کر پکاریں مگر پیارے