رفیق الحرمین

واپَس آئے اورطواف کر لے {۹اگر مِیقات سے باہَر ہونے کے بعد یاد آیا تو واپَس ہونا ضَروری نہیں بلکہ دَم کے لیے جانور حَرَم میں بھیج دے ،  اگر واپس ہو تو عُمرے کا اِحرام باندھ کر واپَس آئے اورعُمرے سے فارِغ ہوکرطوافِ رُخصت بجا لائے ،  اب اِس صورت میں دَم ساقِط ہوجائے گا {۱۰ طَوافِ رُخصت کے تین پھیرے چھوڑے گا تو ہر پھیرے کے بدلے ایک ایک صَدَقہ دے اوراگر چار سے کم کئے ہیں تو دَم دیناہوگا {۱۱ہوسکے تو بے قراری کے ساتھ روتے روتے طوافِ رُخصت بجالائیے کہ نہ جانے آیَندہ یہ سَعادت مُیَسَّر آتی بھی ہے یا نہیں  {۱۲ بعدِ طَواف بدستور دو رَکْعَت وا جِبُ ا  لطَّواف ادا کیجئے {۱۳طَوافِ رُخصت کے بعد بدستور زَم زَم شریف پر حاضِر ہوکر آبِ زَم زَم  نوش کیجئے اوربَدَن پر ڈالئے {۱۴پھر دَروازۂ کعبہ کے سامنے کھڑے ہوکر ہوسکے تو آستانۂ پاک کو بوسہ دیجئے اورقَبولِ حج و زِیارت اور بار بار حاضِری کی دُعا مانگئے۔اور دعائے جامِع   (یعنی رَبَّنَاۤ اٰتِنَا ۔۔۔اِلخ)   یایہ دعاپڑھئے:  اَلسَّآئِلُ بِبَابِكَ یَسْأَ لُكَ  مِنْ  فَضْلِكَ وَمَعْرُوْفِكَ وَیَرْجُوْ رَحْمَتَكَ  (ترجَمہ : تیرے دروازہ پر سائل تیرے فضل و احْسان کاسُوال کرتا ہے اور تیری رَحمت کا اُمّیدوار ہے )    (بہارِ شریعت ج ۱ ص ۱۱۵۲)    {۱۵مُلْتَزَم پر آکر غلافِ کعبہ تھام کر اُسی طرح چمٹئے اور ذِکرودُرُوداور دُعا کی کثرت کیجئے {۱۶پھر ممکن ہو تو حَجرِ اَسوَد کو بوسہ دیجئے اورجو آنسو رکھتے ہیں گرایئے  {۱۷پھر کعبۂ مُشَرَّفہ کی طرف مُنہ کئے اُلٹے پاؤں یا حسبِ معمول چلتے ہوئے بار بار مُڑ کر کعبۂ مُعظَّمہ کو حَسرَت سے دیکھتے  ،  اُس کی جُدائی پر آنسو بہاتے یا کم از کم رونے جیسی صورت بنائے مسجدُالحرام سے ہمیشہ کی طرح اُلٹا پاؤں بڑھا کر باہر نکلئے اور باہَر نکلنے کی دُعا پڑھئے {۱۸حَیض و نِفاس والی دروازۂ مسجِد پر کھڑی ہوکر بہ نگاہِ حَسرَت کعبۂ مُشرَّفہ کی زِیارت کرے اور روتی ہوئی دُعا کرتی ہوئی پلٹے {۱۹پھر بَقَدَرِ قُدرت فُقَرائے مَکَّۂ مُعظَّمہ میں خیرات تقسیم کیجئے۔  (بہارِ شریعت ج۱ ص۱۱۵۱ ، ۱۱۵۳) 

یاالٰہی!ہر برس حج کی سعادت ہو نصیب

بعدِ حج جا کر کروں دیدارِدربارِ حبیب

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

حجِّ بَدَل:  جس پر حج فرض ہو اُس کی طرف سے کئے جانے والے حجِ بَدَل کی کچھ شرطیں ہیں مگر حجِ نَفل کی کوئی شَرْط نہیں  ،  یہ تو اِیصالِ ثواب کی ایک صورت ہے اور ایصالِ ثواب فرض نَماز و روزہ ،  حج و زکوٰۃ ،  صَدَقات و خیرات وغیرہ تمام اَعمال کا ہوسکتاہے۔ لہٰذا اگر اپنے مرحوم والدَین وغیرہ کی طرف سے آپ اپنی مرضی سے حج کرناچاہیں یعنی نہ اُن پر فَرض تھا نہ اُنہوں نے وَصِیَّت کی تھی تو اِس کی کوئی شرائط نہیں ہیں ۔ اِحرامِ حج  ، والِد یا والِدہ کی نیَّت سے باندھ لیجئے اور تمام مَناسکِ حج بجالایئے۔ اِس طرح فائدہ یہ ہوگا کہ اُن کو ایک حج کا ثواب ملے گا اور حج کرنے والے کو بحکمِ حدیث دَس حج کا ثواب عطا کیا جائے گا۔   (دارقطنی ج ۲ ص ۳۲۹ حدیث ۲۵۸۷ )   لہٰذا جب بھی نَفْل حج کی سعادت ملے تو اَفضل یِہی ہے کہ والِد یا والِدہ کی طرف سے کیجئے ۔یاد رہے! ایصالِ ثواب کیلئے کئے جانے والے حجِّ تَمَتُّع یا قِرَان کی قربانی واجِب ہے اور حج کرنے والا خود اپنی نیّت سے کرے اور اِس کا بھی ایصالِ ثواب کر دے۔

 ’’  یا خدا حج کا شرف عطا کر ‘‘ کے سترہ حروف کی نسبت سے حجِّ بَدَل کی 17شرائط

اب جن لوگوں پر حج فرض ہوچکا اُن کے حجِ بَدَل کی شرائط پیش کی جاتی ہیں :

           {۱جو حجِ بَدَل کرواتاہو اُس کے لئے ضَروری ہے کہ اُس پر حج فَرض ہوچُکا ہو یعنی اگر فرض نہ ہونے کے باوُجُود اُس نے حجِ بَدَل کروایا تو فرض حج ادا نہ ہوا۔یعنی بعد میں اگر اُس پر حج فرض ہو گیا تو پہلا حجِ بَدَل کفایت نہ کرے گا  {۲جس کی طرف سے حج کیا ہو وہ اِس قَدَر عاجِز ومجبور ہو کہ خود حج کرہی نہ سکتاہو۔ اگر اِس قابِل ہوکہ خود حج کرسکتاہے تو اُس کی طرف سے حجِّ بَدَل نہیں ہو سکتا {۳ وَقتِ حج سے موت تک عُذْر برابر باقی رہے۔ یعنی حجِّ بَدَل کروانے کے بعد موت سے پہلے پہلے اگر خود حج کرنے کے قابِل ہوگیا تو جو حج دوسرے سے کروالیا تھا وہ ناکافی ہوگیا  {۴}   ہاں ! اگر وہ کوئی ایسا عُذْر تھا جس کے جانے کی اُمّید ہی نہ تھی مَثَلاً نابینا ہے اور حجِّ بَدَل کروانے کے بعد انکھیارا ہوگیاتو اب دوبارہ حج کرنے کی ضَرورت نہیں  {۵}   جس کی طرف سے حجِّ بَدَل کیا جائے خود اُس نے حُکم بھی دِیا ہو بِغیر اُس کے حُکم کے حجِّ بَدَل نہیں ہوسکتا {۶ہاں  ، وارِث نے اگر مُورِث   (یعنی وارِث کرنے والے )    کی طرف سے کیا تو اِس میں حُکْم کی ضَرورت نہیں  {۷تمام اَخراجات یا کم از کم اَکثر اَخراجات بھیجنے والے کی طرف سے ہوں   (مُلَخَّص ازبہارِ شریعت ج۱ ص ۱۲۰۱  ،  ۱۲۰۲ )    {۸وَصِیَّت کی تھی کہ میرے مال سے حج کروا دیا جائے مگر وارِث نے اپنے مال سے کروا دیا تو حجِّ بَدَل نہ ہوا  ،  ہاں اگر یہ نیَّت ہوکہ تَرکے   (یعنی میِّت کے چھوڑے ہوئے مال)  میں سے لے لوں گا تو ہوجائے گااوراگر لینے کا اِرادہ نہ ہو تو نہیں ہوگا اور اگر اَجنبی نے اپنے مال سے حجِّ بَدَل کروا دیا تو نہ ہوا ،  اگرچِہ واپَس لینے کا اِرادہ ہو ،  اگرچِہ وہ مرحوم خود اُسی کو حجِّ بَدَل کرنے کو کہہ گیا ہو۔  (رَدُّالْمُحتار ج۴ ص۲۸  {۹اگر یوں کہا کہ میری طرف سے حجِّ بَدَل کروا دِیا جائے اور یہ نہ کہا کہ میرے مال سے اب اگر  وارِث نے خود اپنے مال سے حجِّ بَدَل کروا دیا اور واپَس لینے کا بھی اِرادہ نہ ہو ،  ہوگیا۔   (اَیضاً {۱۰جس کو حُکم دِیا وُہی کرے اگر جس کو حُکم تھا اُس نے کسی دوسرے سے کروادیا تو نہ ہوا۔  (بہارِ شریعت ج۱ص۱۲۰۲ {۱۱}  میِّت نے جس کے بارے میں وَصِیَّت کی تھی اُس کا بھی اگر اِنتِقال ہوگیا یا وہ جانے پر راضی نہیں تو اب دوسرے سے حج کروا لیا گیا تو جائز ہے۔  (رَدُّالْمُحتار ج۴ ص۱۹ {۱۲حجِّ بَدَل کرنے والا اکثر راستہ سُواری پر قَطع  (یعنی طے)   کرے ورنہ حجِّ بَدَل نہ ہو گا اورخَرچ بھیجنے والے کو دینا پڑے گا۔ ہاں !اگر خرچ میں کمی پڑی تو پیدل بھی جاسکتاہے۔   (بہارِ شریعت ج۱ ص۱۲۰۳ {۱۳جس کی طرف سے حجِ بَدَل کرنا ہے اُسی کے وطن سے حج کو جائے۔    (ایضاً)    {۱۴اگر آمِر  (حُکم دینے والے)  نے  ’’  حج ‘‘ کا حُکم دیا تھا اور خود مامور   (یعنی جس کو حُکم دیا گیا اُس )  نیحجِّ تَمَتُّع کیا تو خرچہ واپَس کر دے۔   (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ   ج ۱۰ ص ۶۶۰کیونکہ  ’’  حجِّ تَمَتُّع  ‘‘  میں حج کا اِحرام  ’’  مِیقاتِ آمر ‘‘ سے نہیں ہوگا بلکہ حَرَم ہی سے بندھے گا۔ ہاں  آمِر کی اِجازت سے ایسا کیا گیا   (یعنیحجِّ تَمَتُّع کیا گیا )   تو مُضایَقہ نہیں  {۱۵ ’’  وصی ‘‘ نے  (یعنی جس کو وَصِیَّت کر گیا تھا کہ تُو میری طرف سے حج کروا دینا ،  اُس نے)  اگر میِّت کے چھوڑے ہوئے مال کا تیسراحصَّہ اِتنا تھا کہ وطن سے آدَمی بھیجا جا سکتا تھا ، پھر بھی اگر غیر جگہ سے بھیجا تو یہ حج میِّت کی طرف سے نہ ہوا۔ ہاں وہ جگہ وطن سے اِتنی قریب ہوکہ وہاں جا کر رات کے آنے سے پہلے واپَس آسکتاہے تو ہوجائے گا ورنہ اُسے چاہئے کہ خود اپنے مال سے میِّت کی طرف

Index