رفیق الحرمین

‘‘  سے بعض دُعا قَبول ہونے کے مخْصوص مَقامات کا ذِکر کیا جاتا ہے۔ تاکہ آپ اُن مَقامات پر مزید دِل جَمعی اور توجُّہ کے ساتھ دُعا کرسکیں ۔

مَکَّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے مَقامات یہ ہیں :  {1مَطاف  {2}   مُلتَزَم {3مُسْتَجار {4بیتُ اللّٰہ کے اَندر  {5میزابِ رَحمت کے نیچے  {6}   حَطِیْم  {7حَجرِاَسوَد {8رُکنِ یَمانی خُصوصاً جب دَورانِ طواف وہاں سے گزر ہو  {9مَقامِ اِبراہیم کے پیچھے  {10زَم زَم کے کنویں کے قریب  {11صَفا  {12}   مروہ  {13مَسعٰی خُصوصاً سبز میلوں کے درمیان  {14}   عَرَفات خُصوصاً موقِفِ نبیِّ پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نزدیک  {15}   مزدَلِفہ خُصوصاً مَشْعَرُالحرام  {16مِنٰی {17 تینوں جَمرات کے قریب  {18جب جب کَعْبہ مشَرَّفہ پر نظر پڑے۔مدینہ مُنوَّرہ  زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے مَقامات یہ ہیں :   {19مسجدِنبوی شریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  {20}   مُواجَھَہ شریف ،  اِمام اِبنُ الجزری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں : دُعا یہاں قَبول نہ ہوگی تو کہاں قَبول ہوگی (حصن حصین ص۳۱)   {21منْبرِاطہر کے پاس  {22}   مسجدِ نبوی شریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سُتونوں کے نزدیک  {23مسجدِ قُبا شریف {24مسجدُ الفتح میں خُصوصاً بدھ کوظہر وعَصر کے  دَرمِیان {25باقی مساجدِ طیِّبہ جن کو سرکارِمدینہ ،  سُکونِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نسبت ہے  (مَثَلاً مسجدِغَمامہ ،  مسجدِ قِبْلَتَین وغیرہ وغیرہ )   {26}   وہ مُبارَک کُنویں جنہیں سَروَرِ کونین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نسبت ہے  {27}     جَبَل اُحُد شریف  {28مَشَاہَدِ مُبارَکہ ؎[1]  {29مزاراتِ بقیع۔تاریخی روایات کے مطابِق جنتُ البقیع میں تقریباً دس ہزار صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانآرام فرما ہیں ۔

             افسوس! 1926 میں جنَّتُ البقیع کے مزارات کو شہید کردیا گیااب جگہ جگہ مبارک قبریں مسمار کرکے وہاں راستے نکال دیئے گئے ہیں لہٰذا آج تک سگِ مدینہ عفی عنہ کو جنَّتُ البقیع کے اندر داخِلے کی جُرأَت نہیں ہوئی مَبادا  (یعنی کہیں ایسانہ ہو) کسی مزارِ فائض الانوار پر پاؤں پڑ جائے اور مسئلہ بھی یِہی ہے کہ قبرمسلم پر پاؤں رکھنا ،  بیٹھنا وغیرہ سب حرام ہے۔ دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ  کا مطبوعہ 48 صَفْحات پر مشتمل رسالہ  ،   ’’  قبروالوں کی 25 حکایات ‘‘  صَفْحَہ34پر ہے:   (قبرِستان میں قبریں مِٹا کر) جونیاراستہ نکالا گیاہو اُس پرچلنا حرام ہے۔ (رَدُّالْمُحتار ج ۱ ص ۶۱۲ )  بلکہ نئے راستے کا صِرف گمان ہو تب بھی اُس پر چلنا ناجائز وگناہ ہے۔ (دُرِّمُختارج۳ص۱۸۳ )   لہٰذا عاشقانِ رسول سے درخواست ہے کہ وہ باہَر ہی سے سلام عرض کریں ۔بقیع شریف کے صدر دروازے سے سلام عرض کرناضَروری نہیں  ،  صحیح طریقہ یہ ہے کہ قبرِستان کے باہَرایسی جگہ کھڑے ہوں جہاں آپ کی قبلے کو پیٹھ ہو کہ اِس طرح مدفونینِ بقیع کے چہروں کی طرف آپ کا رُخ ہو جائیگا۔

ہیں مَعاصی حد سے باہَر پھر بھی زاہِد غم نہیں

رحمتِ عالم کی اُمّت ،  بندہ ہوں غفّار کا     (سامانِ بخشش )

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

حج کی قسمیں

حج کی تین قسمیں ہیں :  {1 قِرَان {2 تَمَتُّع  {3 اِفراد

 [1]  قِرَان:  یہ سب سے افضل ہے ، قِران کرنے والا  ’’  قارِن ‘‘  کہلاتا ہے  ،  اِس میں عُمرہ اور حج کا اِحرام ایک ساتھ باندھا جاتا ہے مگرعُمرہ کرنے کے بعد ’’  قارِن ‘‘  حَلْق یا  ’’  قَصْر ‘‘  نہیں کرواسکتا اِسے بدستور اِحرام میں رہنا ہو گا ،  دسویں  ،  گیارہویں یا بارہویں ذُوالْحِجَّہ  کو قربانی کرنے  کے بعد حَلْق یا قَصْرکروا کے اِحرام کھول دے۔

 [2]  تَمَتُّع:  یہ حج ادا کرنے والا ’’  مُتَمَتِّع ‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ اَشْہُرِحج میں  ’’  مِیْقات ‘‘ کے باہر سے آنے والے ادا کر سکتے ہیں ۔ مَثَلاً پاک و ہند سے آنے والے عُمومًا تَمَتُّع ہی کیا کرتے ہیں کہ آسانی یہ ہے کہ اس میں عُمرہ تو ہوتا ہی ہے لیکن عُمرہ ادا کرنے کے بعد  ’’  حَلْق یا قَصْر ‘‘ کرواکے اِحرام کھول دیا جاتا ہے او رپھر8 ذُوالْحِجَّہیا اِس سے قبل حج کا اِحرام باندھا جاتا ہے۔

 [3] اِفراد:  اِفراد کرنے والے حاجی کو  ’’  مُفْرِد ‘‘ کہتے ہیں ۔ اِس حج میں  ’’  عُمرہ ‘‘ شامل نہیں ہے اِس میں صرف حج کا  ’’  اِحرام ‘‘ باندھا جاتا ہے۔ اہلِ مَکَّہ اور  ’’  حِلِّی ‘‘ یعنی مِیْقات اور حُدُودِ حرم کے دَرمِیان میں رہنے والے باشندے  (مَثَلاً اہلیانِ جَدَّہ شریف)   ’’  حج اِفراد ‘‘  کرتے ہیں ۔قِران یا تمتُّع کریں گے تو دم واجِب ہو گا ، آفاقی چاہے تو  ’’  اِفراد ‘‘  کر سکتا ہے۔

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اِحرام باندھنے کا طریقہ:  حج ہو یا عُمرہ اِحرام باندھنے کا طریقہ دونوں کا ایک ہی ہے۔ ہاں نیَّت اور اُس کے اَلفاظ میں تھوڑاسافرق ہے۔نیَّت کابیان اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ آگے آرہا ہے۔ پہلے اِحرام باندھنے کا طریقہ مُلاحَظہ فرمایئے:  {۱ناخُن تَراشئے  {۲بغل اور ناف کے نیچے کے بال دُور کیجئے بلکہ پیچھے کے بال بھی صاف کرلیجئے  {۳مِسْواک کیجئے  {۴وُضو کیجئے  {۵خوب اچھی طرح مَل کے غُسل کیجئے {۶جسم اوراِحرام کی چادروں پر خوشبو لگایئے کہ یہ سُنَّت ہے ،  کپڑوں پرایسی خوشبو  (مَثَلاً خُشک عَنبر وغیرہ) نہ لگایئے جس کاجِرم  (یعنی تَہ )   جَم جائے  {۷اِسلامی بھائی سِلے ہوئے کپڑے اُتار کر ایک نئی یا دُھلی ہوئی سفید چادر اوڑھیں اور ایسی ہی چادر کا تہبند باندھیں ۔  (تہبند کے لئے لٹھا اور اَوڑھنے کے لئے