رفیق الحرمین

سُوال: دسویں کو طَوافُ الزِّیارۃ کے لئے حاضِر ہوئے مگر غَلَطی سے  ’’  نَفلی طَواف ‘‘  کی  نیَّت کرلی ،  اب کیا کرنا چاہیے؟

جواب: آپ کا طَوافِ زِیارت ادا ہوگیا۔ یہ بات ذِہن نشین کرلیجئے کہ طَواف میں نیَّت ضَرور فَرض ہے کہ اِس کے بِغیر طَواف ہوتا ہی نہیں مگر اِس میں یہ شَرْط نہیں کہ کسی مُعَیَّن  (یعنی مخصُوص)   طَواف کی نیَّت کی جائے ۔ ہر طرح کا طَواف فَقَط  ’’ نیَّتِ طَواف ‘‘  سے ادا ہوجاتا ہے ،  بلکہ جس طَواف کو کسی خاص وَقْت کے ساتھ مخصوص کر دیا گیا ہے اگر اُس مخصوص وَقْت میں آپ نے کسی دوسرے طَواف کی نیَّت کی بھی ،  جب بھی یہ دوسرا نہ ہوگا بلکہ وہ ہوگا جو مخصوص ہے۔ مَثَلاً عُمرے کا اِحرام باندھ کر باہَر سے حاضِر ہوئے اور عُمرے کے طَواف کی نیَّت نہ کی مُطْلَقا  ( صِرْف)    ’’  طَواف ‘‘  کی نیَّت کی بلکہ  ’’ نفلی طَواف  ‘‘ کی نیَّت کی ،  ہر صورت میں یہ عُمرے ہی کا طَواف مانا جائے گا۔ اِسی طرح  ’’  قِران ‘‘ کا اِحْرام باندھ کر حاضِر ہوئے اور آنے کے بعد جو پہلا طَواف کیا وہ  ’’ عُمرے ‘‘  کا ہے اور دوسرا طَواف  ’’  طوافِ قُدُوم ‘‘ ۔   (اَلْمَسْلَکُ الْمُتَقَسِّط لِلقاری  ، ص۱۴۵) 

سُوال: اگر طَوافِ زِیارت کئے بِغیروطن چلا گیاتو کیا  کَفّارہ ہے؟

جواب: کَفّارے سے گزارہ نہیں کیونکہ حج ہی نہ ہوا۔اِس کا کوئی نِعمَ البَدَل    (Alternativeنہیں لہٰذا لازِمی ہے کہ دوبارہ مکّۂ مکرَّمہ  زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًحاضِر ہو اورطَوافِ زِیارت کرے ،  جب تک طَوافِ زِیارت نہیں کرے گا عورَتیں حَلال نہیں ہوں گی چاہے برسوں گزر جائیں ۔اگر عورت نے یہ بھول کی ہے تو جب تک طَوافِ زِیارت نہ کرے وہ مرد کے لئے حلال نہ ہو گی اگر کنواروں نے کیا تو شادی کر بھی  لیں تو جب تک طَوافِ زِیارت نہ کر لیں   ’’ حلال  ‘‘  نہ ہوں گے۔

طَوافِ رُخصَت کے بارے میں سُوال وجواب

سُوال:  طوافِ وَداع یعنی طوافِ رُخصت کرلیا پھر گاڑی لیٹ ہوگئی اب نَماز کے لئے مسجدُ الحرام جاسکتے ہیں یا نہیں ؟ کیا واپسی کے وَقْت پھر طوافِ رُخصت بجا لانا ہو گا؟

جواب: جاسکتے ہیں بلکہ جتنی بار موقع ملے مزید عُمرے اور طَواف وغیرہ بھی کر سکتے ہیں ۔ دوبارہ طواف کرنا واجِب نہیں مگرکر لے تومُستَحَب ہے ۔ صَدرُالشَّریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : سفر کا ارادہ تھا طوافِ رُخصت کر لیا مگر کسی وجہ سے ٹھہر گیا ،  اگر اقامت کی نیّت نہ کی تو وُہی طواف کافی ہے مگرمُستَحَب یہ ہے کہ پھر طواف کرے کہ پچھلا کام طواف رہے۔          (بہارِ شریعت  ، ج ۱  ، ص۱۱۵۱ ،  عالمگیری  ، ج۱ ، ص۲۳۴

طوافِ رخصت کا اَہَم مسئلہ

سُوال: اگر حج کے بعد وطن روانگی سے قَبل دو دِن جَدَّہ شریف میں کسی عزیز کے ہاں ٹھہرنے کااِرادہ ہے اور پھر بعد میں   ’’ عَزمِ مدینہ  ‘‘ ہے تو طوافِ رُخصت کب کریں ؟

جواب: جَدَّہ شریف جانے سے پہلے کر لیجئے ،  کہ طَوافِ زِیارت کے بعد اگرنَفْلی طواف بھی کیا تو وُہی  ’’  الوداعی طواف  ‘‘ یعنی طوافِ رُخصت ہے کیونکہ آفاقی کے لئے طوافِ زیارت کے فوراً بعد طوافِ رُخصت کاوَقْت شُروع ہوجاتا ہے اور آگے گزرا کہ ہر طواف مُطْلَقاً طَواف کی نیَّت سے بھی ادا ہوجاتا ہے۔ اَلحاصل اگر روانگی سے قَبل طَوافِ زیارت کے بعد اگر کوئی نفلی طَواف کرلیا ہے تو طوافِ رُخصت ادا ہوچکا۔

سُوال: وَقتِ رُخصت آفاقی عورَت کو حَیض آگیا ،  طَوافِ رُخصت کا کیا کرے ؟  رُک جائے یا دَم دے کر چلی جائے؟

جواب: اس پر اب طَوافِ رُخصت واجِب نہ رہا ،  جاسکتی ہے ، دَم کی بھی حاجت نہیں ۔   ( ماخوذ ازبہارِ شریعت ج۱ ص۱۱۵۱) 

سُوال: جومکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًیا جَدَّہ شریف میں رہتے ہیں کیا اُن پر بھی طَوافِ رُخصت واجِب ہے؟

جواب: جی نہیں ۔جو لوگ مِیقات کے باہَر سے حج پر آتے ہیں وہ  ’’  آفاقی حاجی ‘‘  کہلاتے ہیں  ،  صِرْف اُن ہی پربوقتِ واپسی طَوافِ رُخصت واجِب ہے۔

سُوال:  اہلِ مدینہ حج کریں تو واپَسی کے وَقْت ان پر طوافِ رُخصت واجِب ہے یا نہیں ؟

جواب:  واجِب ہے کیوں کہ وہ  ’’ آفاقی حاجی ‘‘  ہیں  ،  مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًمیقات سے باہَر ہے۔

سُوال: کیا عُمرہ کرنے والے پر بھی طَوافِ رُخصت واجِب ہے؟

جواب: جی نہیں  ، یہ صِرْف آفاقی حاجی پروَقتِ رُخصت واجِب ہے۔

طواف کے بارے میں متفرق سُوال و جواب

سُوال: بھیڑ کے سبب یا بے خَیالی میں کسی طَواف کے دَوران تھوڑی دیر کے لئے اگر سینہ یا پیٹھ کعبے کی طرف ہوجائے تو کیا کریں ؟

جواب: طَواف میں سینہ یا پیٹھ کئے جتنا فاصِلہ طے کیا ہو اُتنے فاصلے کااِعادہ   (یعنی دوبارہ کرنا )    واجِب ہے اور افضل یہ ہے کہ وہ پَھیرا ہی نئے سرے سے کرلیا جائے ۔           

تکبیرِطواف میں ہاتھ کہاں تک اُٹھائیں ؟

سُوال: تکبیرِطواف میں حجرِ اَسْوَد کے سامنے ہاتھ کندھوں تک اُٹھانا سنَّت ہے یا نَمازی کی طرح کانوں تک؟

جواب:  اِس میں عُلَماء کے مختلف اَقوال ہیں ۔   ’’ فتاوٰی حج و عمرہ ‘‘  میں جُداجدا اقوال نَقْل کرتے ہوئے لکھا ہے:  کانوں تک ہاتھ اُٹھانا مَرْد کیلئے ہے کیوں کہ وہ نَماز کیلئے بھی کانوں تک ہاتھ اُٹھاتا ہے اور عورت کندھوں تک ہاتھ اُٹھا ئے  گی اس لئے کہ وہ نَمازکیلئے یہیں تک ہاتھ اٹھاتی ہے۔   (فتاوٰی حج وعمرہ  ، حصّہ اوّل  ، ص  ۱۲۷

سُوال:  نَماز کی طرح ہاتھ باندھ کر طواف کرناکیسا؟

جواب: مُستَحب نہیں ہے ، بچنا مناسِب ہے۔

طواف میں پَھیروں کی گنتی یاد نہ رہی تو؟

 

Index