حاجیوں کا واسِطہ کُل اولیاء کا واسِطہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
دسویں ذُوالحجہ کا پہلا کام رَمی: مُزْدَلِفہ شریف سے مِنٰی شریف پہنچ کر سیدھے جَمْرَۃُ العَقَبَہ یعنی بڑے شیطان کی طرف تشریف لایئے ، آج صِرْف اِسی ایک کو کنکریاں مارنی ہیں ۔ پہلے کعبۂ شریف کی سَمْت معلوم کرلیجئے پھرجَمرے سے کم از کم پانچ ہاتھ (یعنی تقریباً ڈھائی گز) دُور (زِیادہ کی کوئی قید نہیں ) اِس طرح کھڑے ہوں کہ مِنٰی آپ کے سیدھے ہاتھ پر اور کعبہ شریف اُلٹے ہاتھ کی طرف رہے اورمُنہ جَمرے کی طرف ہو ، سات کنکریاں اپنے اُلٹے ہاتھ میں رکھ لیجئے بلکہ دو تین زائد لے لیجئے ۔[1] اب سیدھے ہاتھ کی چٹکی میں لے کراورہاتھ اچّھی طرح اُٹھا کر کہ بغل کی رنگت ظاہِر ہو ہر بار بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَر کہتے ہوئے ایک ایک کر کے سات کنکریاں اِس طرح ماریئے کہ تمام کنکریاں جمرے تک پہنچیں ورنہ کم از کم تین ہاتھ کے فاصلے تک گریں ۔ پہلی کنکری مارتے ہی لَبَّیْک کہنا موقوف کردیجئے جب سات پوری ہوجائیں تو وہاں نہ رُکیے ، نہ سیدھے جایئے نہ دائیں بائیں بلکہ فوراً ذِکر و دُعا کرتے ہوئے پَلَٹ آئیے۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۱۱۹۳) (فوراً پلٹنا ہی سنّت ہے مگراب جدید تعمیرات کے سبب پلٹنا ممکن نہیں رہا لہٰذا کنکریاں مارکر کچھ آگے بڑھ کر ’’ یوٹرن ‘‘ کی ترکیب کرنی ہو گی)
رَمی کے وَقت احتِیاط کے5مَدَنی پھول
خوش نصیب حاجیو!رَمیِ جَمرات کے وَقْت خُصُوصاً دسویں کی صُبح حاجیوں کا زبردست رَیلا ہوتاہے اوربعض اَوقات اِس میں لوگ کُچلے بھی جاتے ہیں ۔سگِ مدینہ عفی عنہ نے ۱۴۰۰ ھ میں دسویں کو صُبح مِنٰی شریف میں اپنی آنکھوں سے یہ لرزہ خَیز منظَر دیکھا تھا کہ لاشوں کو اُٹھا اُٹھا کر ایک قِطار میں لِٹایا جا رہا تھا مگر اب جگہ میں کافی توسیع کر دی گئی ہے نیچے کے حصّے کے علاوہ اوپر چار منزلیں مزید بنا دی گئی ہیں اِس لئے ہجوم کافی تقسیم ہو جاتا ہے۔ کچھ اِحتِیاطیں عرض کرتا ہوں :
[1] : 10 ویں کی صبح کافی ہُجوم ہوتا ہے ، دوپہر کے تین چار بجے بھیڑ کم ہو جاتی ہے اب اگراسلامی بہنیں بھی ساتھ ہوں تو حَرَج نہیں اُوپرکی منزل سے رَمْی کریں گے تو رَش اور بھی کم ملے گا اور کُھلی ہوا بھی مِل سکے گی [2] رَمی میں چھڑی ، چَھتری اور دیگر سامان ساتھ نہ لے جایئے ، انتِظامیہ کے اَہل کار لے لیتے ہیں ، واپَس ملنا دشوارہوتا ہے ۔ ہاں ، چھوٹا سا اسکول بیگ اگر کمر پر لٹکا ہوا ہو تو بعض اوقات لے جانے دیتے ہیں مگر10ویں کی رَمی میں یہ بھی نہ ہی لے جائیں تو بہتر ہے کہ روک لیا تو آپ آزمائش میں پڑ سکتے ہیں ۔11اور 12کی رَمی میں چھوٹی موٹی چیزیں لے جانے کے معاملے میں انتطامیہ کی طرف سے سختی قدرے کم ہو جاتی ہے [3] ویل چئیر والوں کیلئے رَمی کا مناسِب وَقْت تینوں دن بعد نَمازِعَصْر ہے [4] کنکریاں مارتے وَقْت کوئی چیز ہاتھ سے چھوٹ کر گرجائے یاپاؤں سے چپل نکلتی محسوس ہو تو ہُجوم ہونے کی صورت میں ہرگز مت جُھکئے [5] جب کچھ رُفَقاء مل کر رَمیکرنا چاہیں تو پہلے ہی سے واپس مِلنے کی کوئی قریبی جگہ مقرَّر کر کے اُس کی نشانی یاد رکھ لیجئے ورنہ بِچھَڑ جانے کی صورت میں بے حد پریشانی ہوسکتی ہے ۔ بھیڑ کے دیگر مقامات پر بھی اِس بات کا خیال رکھئے۔ سگِ مدینہ عُفِیَ عَنہ نے ایسے ایسے بوڑھے حاجیوں اورحَجَّنوں کو بِچھَڑتے دیکھا ہے کہ بے چاروں کو اپنے مُعلِّمتک کا نام معلوم نہیں ہوتا اور پھر بچاروں کیلئے وہ آزمائش ہوتی ہے کہ اَلْاَمان وَالْحَفِیْظ ۔
’’ اللہ غفار ‘‘ کے آٹھ حروف کی نسبت سےرَمی کے 8 مَدَنی پھول
دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: {۱} عرض کی گئی: رَمی جِمار میں کیا ثواب ہے؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: تو اپنے رب کے نزدیک اس کا ثواب اُس وَقت پائے گا کہ تجھے اس کی زیادہ حاجت ہو گی ۔ (مُعْجَمُ اَ وْسَط ج ۳ ص ۱۵۰ حدیث ۴۱۴۷) {۲} جمروں کی رَمی کرنا تیرے لیے قِیامت کے دن نور ہوگا۔ (اَلتَّرغِیب وَالتَّرہِیب ج۲ص۱۳۴حدیث ۳) {۳} سات کنکریوں سے کم مارنا جائز نہیں ۔ اگر صِرْف تین ماریں یا بالکل رَمْی نہ کی تو دَم واجِب ہوگا اور اگر چار ماریں تو باقی ہر کنکری کے بدلے صَدَقہ ہے۔ (رَدُّالْمُحتار ج۳ص۶۰۸) {۴} اگرسب کنکریاں ایک ساتھ پھینکیں تویہ سات نہیں فَقَط ایک مانی جائے گی۔ (اَیضاً ص ۶۰۷ ) {۵} کنکریاں زمین کی جِنس سے ہونا ضَروری ہیں ۔ (جیسے کَنکَر ، پتَّھر ، چُونا ، مِٹّی) اگرمَینگنی ماری تو رَمی نہیں ہوگی۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتار ج۳ص۶۰۸) {۶} اِسی طرح بعض لوگ جَمرات پر ڈَبّے ، یا جوتے مارتے ہیں یہ بھی کوئی سنَّت نہیں اور کنکری کے بدلے جوتا یا ڈبّا مارا تو رَمْی ہوگی ہی نہیں {۷} رَمْی کے لیے بہتر یِہی ہے کہمُزْدَلِفہ سے کنکریاں لی جائیں مگر لازِمی نہیں دُنیا کے کسی بھی حصّے کی کنکریاں ماریں گے رَمْی دُرُست ہے {۸} دسویں کی رَمْی طُلُوعِ آفتا ب سے لے کر زَوال تک سنَّت ہے ، زَوال (یعنی ابتدائے وقتِ ظہر) سے لے کر غُروبِ آفتاب تک مُباح (یعنی جائز) ہے اور غُروبِ آفتاب سے صُبحِ صادِق تک مکروہ ہے۔ اگر کسی عُذْر کے سبب ہو مَثَلاًچَرواہے نے رات میں رَمْی کی تو کَراہت نہیں ۔ (اَیضا ًص ۶۱۰)
اِسلامی بہنوں کی رَمی: عُموماً دیکھا جاتا ہے کہ مَرْد بِلا عُذْر عورَتوں کی طرف سے رَمْی کر دیا کرتے ہیں اِس طرح اِسلامی بہنیں رَمْی کی سَعادت سے مَحروم رَہ جاتی ہیں اور چُونکہ رَمی واجِب ہے لہٰذا تَرکِ واجِب کے سبب اُن پر دَم بھی واجِب ہوجاتاہے لہٰذا اِسلامی بہنیں اپنی رَمی خود ہی کریں ۔
مریضوں کی رَمی: بعض حاجی صاحِبان یوں تو ہر جگہ دَندَناتے پھرتے ہیں لیکن معمولی سی بیماری کے سبب وہ دوسروں سے رَمی کروا لیتے ہیں ۔
مریض کی طرف سے رمی کا طریقہ: صَدرُالشَّریعہ ، بَدرُالطَّریقہحضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : جو شخص مریض ہو کہ جَمرے تک سُواری پر بھی نہ جا سکتا ہو ، وہ دوسرے کو حکم کر دے کہ اس کی طرف سے رَمی کرے اور اُس کو چاہیے کہ پہلے اپنی طرف سے سات کنکریاں مارنے کے بعد مریض کی طرف سے رَمی کرے یعنی جب کہ خود رَمی نہ کرچکا ہو اور اگر یوں کیا کہ ایک کنکری اپنی طرف سے ماری پھر ایک مریض کی طرف سے ، یوہیں سات بار کیا تو مکروہ ہے اور مریض کے بِغیر حکم رَمْی کردی تو جائز نہ ہوئی اور اگر مریض میں اتنی طاقت نہیں کہ رَمْی کرے تو بہتر یہ کہ اُس کا ساتھی اُس کے ہاتھ پر کنکری رکھ کر رَمْی کرائے۔ یوہیں بیہوش یا مَجنون یا نا سمجھ کی طرف
[1] ۔۔۔ کاش! اِس وَقت دل میں نیّت حاضِر ہوجائے کہ مجھ پر جو بُری خواہشات مُسلّط ہیں انہیں مار بھگانے میں کامیاب ہوجاؤں ۔