’’ یا اللہ شیطان سے پناہ دے ‘‘ کے اٹھار حروف کی نسبت سے گیارہ اوربارہ کی رَمی کے 18 مَدَنی پھول
[1] 11اور12 ذُوالْحِجَّہکو تینوں شیطانوں کو کنکریاں مارنی ہیں ۔اِس کی ترتیب یہ ہے: پہلے جَمْرَۃُ الْاُولٰی (یعنی چھوٹا شیطان) پھر جَمْرَۃُ الوُسْطیٰ (یعنی منجھلا شیطان) اورآخِر میں جَمْرَۃُ العَقَبَہ (یعنی بڑا شیطان) [2] دوپَہَر (یعنی ظہر کا وَقت شُروع ہونے) کے بعد جَمْرَۃُ الْاُولٰی (یعنی چھوٹے شیطان ) پر آیئے اور قِبلے کی طرف مُنہ کر کے سات کنکریاں ماریئے (کنکری پکڑنے اور مارنے کا طریقہ اسی کتاب کے صَفْحَہ 187پر گزرا) کنکریاں مارکر جمرے سے کچھ آگے بڑھ جایئے اور اُلٹے ہاتھ کی جانِب ہٹ کر قِبلہ رُو کھڑے ہوکر دونوں ہاتھ کندھوں تک اُٹھایئے کہ ہتھیلیاں آسمان کی طرف نہیں بلکہ قبلے کی جانب رہیں ، [1] اب دُعا و اِستِغفار میں کم از کم 20 آیتیں پڑھنے کی مِقدار مشغول رہئے [3] اب جَمْرَۃُ الوُسْطیٰ (یعنی منجھلے شیطان) پر بھی اِسی طرح کیجئے [4] پھر آخِر میں جَمْرَۃُ العَقَبَہ (یعنی بڑے شیطان ) پر اُس طرح ’’ رمی ‘‘ کیجئے جس طرح آپ نے10 تاریخ کو کی تھی ( طریقہ صفحہ186 پر گزرا) یاد رہے! بڑے شیطان کی رَمی کے بعد آپ کو ٹھہرنا نہیں ، فوراً پلٹ پڑنا اور اِسی دَوران دُعا بھی کرنی ہے۔ (دُرُست طریقہ یہی ہے مگراب فوراً پلٹنا ممکِن نہیں رہا لہٰذا کنکریاں مارکر کچھ آگے بڑھ کر ’’ یُوٹَرن ‘‘ کی ترکیب فرما لیجئے) [5] بارہویں کو بھی اِسی طرح تینوں جَمرات کی رَمی کیجئے [6] گیارہویں اور بارہویں کی رَمی کا وَقت زَوالِ آفتاب (یعنی ابتدائے وقت ظہر) سے شُروع ہوتا ہے۔ لہٰذا گیارہویں اور بارہویں کی رمی دوپَہر سے پہلے اصلاً (یعنی بالکل) صحیح نہیں ۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص۱۱۴۸) [7] دسویں ، گیارہویں اور بارہویں کی راتیں (اکثر یعنی ہررات کا آدھے سے زیادہ حصّہ) مِنٰی شریف میں گزارنا سُنَّت ہے [8] بارھویں کی رَمی کرکے غُروبِ آفتاب سے پہلے پہلے اختیار ہے کہ مَکَّہ مُعَظَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کو روانہ ہو جائیں مگر بعدِ غُروب چلا جانا مَعیُوب۔ اب ایک دن اور ٹھہرنا اور تیرھویں کو بدستور دوپہر ڈھلے (یعنی ابتدائے وقت ِظہر) رَمی کرکے مکہ شریف جانا ہوگا اور یِہی افضل ہے [9] اگرمِنٰی میں تیرھویں کی صُبحِ صادِق ہو گئی اب رَمی کرنا واجِب ہوگیا اگر بِغیر رَمی کئے چلے گئے تو دَم واجِب ہوگا [10] گِیارہویں اوربارہویں کی رَمی کا وَقْت آفتا ب ڈھلنے (یعنی ظہر کا وَقت شُروع ہونے) سے صُبحِ صادِق تک ہے مگر بِلا عُذْر آفتاب ڈوبنے کے بعد رَمی کرنا مکروہ ہے [11] تیرہویں کی رَمی کا وَقت صُبحِ صادِق سے غُروبِ آفتاب تک ہے مگر صُبح سے ابتِدائے وَقتِ ظہر تک مکروہِ (تنزیہی) ہے ، ظہر کا وَقت شُروع ہونے کے بعد مَسنُون ہے [12] کسی دِن کی رَمی اگر رہ گئی تو دوسرے دِن قضا کرلیجئے اور دَم بھی دینا ہوگا۔ قضا کا آخِری وَقْت تیرھویں کے غروبِ آفتاب تک ہے [13] رَمی ایک دِن کی رہ گئی اور آپ نے تیرھویں کے غروبِ آفتاب سے پہلے پہلے قضا کر لی تب بھی اوراگر نہیں کی جب بھی یا ایک سے زِیادہ دِنوں کی رہ گئی بلکہ بالکل رَمی کی ہی نہیں ہر صورت میں صِرْف ایک ہی دَم واجِب ہے [14] زائد بچی ہوئی کنکریاں کسی کو ضَرورت ہوتواُس کو دے دیجئے یا کسی پاک جگہ ڈال دیجئے ، ان کو جمروں پر پھینک دینا مکروہِ (تنزیہی) ہے [15] آپ نے کنکری ماری اور وہ کسی کے سَر وغیرہ سے ٹکرا کر جَمرے کو لگی یا تین ہاتھ کے فاصِلے پر گری تو جائز ہوگئی [16] اگر آپ کی کنکری کسی پر گری اور اُس نے ہاتھ وغیرہ کا جھٹکا دِیا جس سے وہاں تک پہنچی تو اُس کے بدلے کی دوسری ماریئے [17] اُوپر کی منزِل سے رَمی کی اورکنکری جَمرے کے گرد بنی ہوئی پیالہ نُما فصیل (یعنی باؤنڈری ) میں گری تو جائز ہوگئی کیونکہ فصیل میں سے لڑھک کر یا تو جمرے کو لگتی ہے یا تین ہاتھ کے فاصلے کے اَندر اَندر گرتی ہے [18] اگر شک ہو کہ کنکری اپنی جگہ پہنچی یا نہیں تو دوبارہ ماریئے۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص۱۱۴۶ ، ۱۱۴۸)
’’ والعیاذ باللہ ‘‘ کے بارہ حروف کی نسبت سےرَمی کے 12 مکروہات
(نمبر1اور2 سنتِ مؤکدہ کے ترک کی وجہ سے اِساء ت۔جبکہ بقیہ سب مکروہِ تنزیہی ہیں )
[1] دسویں کی رَمی بِغیر مجبوری کے غُروبِ آفتاب کے بعد کرنا۔ (سُنتِ مؤکدہ کے خلاف ہونے کے سبب اِسائَ ت ہے) [2] جمروں میں خِلافِ ترتیب کرنا [3] تیرہویں کی رَمی ظہر کا وَقْت شُروع ہونے سے پہلے کرنا [4] بڑا پتَّھر مارنا [5] بڑے پتھر کو توڑ کر کنکریاں بنانا [6] مسجِد کی کنکریاں مارنا [7] جَمرے کے نیچے جو کنکریاں پڑی ہیں اُن میں سے اُٹھا کر مارنا (مکروہِ تنزیہی ہے) کہ یہ نامقبول کنکریاں ہیں ، جو مقبول ہوتی ہیں وہ غیبی طور پراُٹھا لی جاتی ہیں اور قِیامت کے دِن نیکیوں کے پلڑے میں رکھی جائیں گی [8] جان بوجھ کر سات سے زِیادہ کنکریاں مارنا [9] ناپاک کنکریاں مارنا [10] رَمی کے لیے جو سَمْت مقرّر ہوئی اُس کے خِلاف کرنا [11] جمرے سے پانچ ہاتھ سے کم فاصلے پر کھڑے ہونا۔ زِیادہ کا کوئی مُضایَقہ نہیں ( البتہ یہ ضَروری ہے کہ قریب ہو تب بھی کنکری ماری ہی جائے ، صرف رکھ دینے کے انداز میں نہ ہو ۔ ) [12] مارنے کے بدلے کنکری جمرے کے قریب ڈال دینا۔ (بہارِ شریعت ج۱ص۱۱۴۸ ، ۱۱۴۹)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
’’ یا خدا بار بار حج نصیب کر ‘‘ کے انیس حروف کی نسبت سے طَوافِ رُخصَت کے 19مَدَنی پھول
{۱} جب رُخصت کا اِرادہ ہو اُس وَقْت ’’ آفاقی حاجی ‘‘ پر طَوافِ رُخصت واجِب ہے ، نہ کرنے والے پر دَم واجِب ہوتاہے۔اِس کو طوافِ وَداع اورطوافِ صَدْر بھی کہتے ہیں {۲} اِس میں اِضْطِباع ، رَمَل اور سَعْی نہیں {۳} عُمرے والوں پر واجِب نہیں {۴} حَیض ونِفاس والی کی سِیٹ بُک ہے تو جاسکتی ہے اُس پر اب یہ طَواف واجِب نہیں اوردَم بھی نہیں {۵} طَوافِ رُخصت میں صِرْف طَواف کی نیَّت ہی کافی ہے ، واجِب ، ادا ، وَداع (یعنی رُخصت) وغیرہ اَلفاظ نیَّت میں شامل ہونا ضَروری نہیں یہاں تک کہ طَوافِ نَفل کی نیَّت کی جب بھی واجِب ادا ہوگیا {۶} سَفَرکا اِرادہ تھا ، طَوافِ رُخصت کرلیا پھر کسی وجہ سے ٹَھَہرنا پڑا جیسا کہ گاڑی وغیرہ میں عُموماً تاخیر ہوجاتی ہے اور اِقامَت کی نیَّت نہیں کی تو وُہی طَواف کافی ہے ، دوبارہ کرنے کی حاجَت نہیں اورمسجدُ الحرام میں نَماز وغیرہ کے لیے جانے میں بھی کوئی مُضایَقہ نہیں ، ہاں مُستحب یہ ہے کہ پھر طَواف کرلے کہ آخِری کام طَواف رہے {۷} طَوافِ زِیارۃ کے بعد جو بھی پہلا نفلی طَواف کیا وُہی طَوافِ رُخصت ہے {۸} جو بِغیر طواف کے رُخصت ہوگیا تو جب تک مِیقات سے باہَر نہ ہوا
[1] ۔۔۔ رمی جمار کے بعد دعامیں ہتھیلیوں کارُخ کعبہ کی طرف ہو۔حجرِ اَسود کے سامنے کھڑا ہونے کے وَقت ہتھیلیوں کا رُخ حجرِ اسود کی طرف ہو اور باقی احوال میں آسمان کی طرف ہو۔