عَصْراورعشاء کی فَرْض رَکْعَتَوں میں چار چار فَرْضوں کی جگہ دو دو رَکْعَت فَرْض ادا کریں گے۔ فَجراور مغرِب میں قَصْر نہیں ، باقی تمام سُنَّتیں ، وِتْر وغیرہ سب پوری ادا کریں {۳} بے شمار حُجّاجِ کرام شوّالُ المکرم یا ذِیقعدۃُ الحرام میں مکۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً پہنچ جاتے ہیں ۔ چونکہ ایّامِ حج آنے میں کافی وَقت باقی ہوتا ہے لہٰذا چندہی دنوں کے بعد اُنہیں تقریباً 9دن کیلئے مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً بھیج دیا جاتا ہے ، اِس صورت میں وہ مدینہ شریف میں مسافِرہی رہتے ہیں بلکہ اِس سے قَبل مکّے شریف میں 15دن سے کم وقفہ ملنے کی صورت میں وہاں بھی مسافِر ہی ہوتے ہیں ۔ ہاں مکّے یا مدینے میں یعنی ایک ہی شہر کے اندر 15یا زیادہ دن رہنے کا یقینی موقع مِلنے کی صورت میں اِقامت کی نیّت دُرُست ہو گی {۴} جس نے اِقامت کی نیّت کی مگر اُس کی حالت بتاتی ہے کہ پندرہ دن نہ ٹھہریگا تو نیَّت صحیح نہیں مَثَلاً حج کرنے گیا اور ذُو الحِجَّۃِ الحرام کا مہینہ شُروع ہوجانے کے باوُجُود پندرہ دن مکّۂ معظّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں ٹھہرنے کی نیَّت کی تو یہ نیّت بیکار ہے کہ جب حج کا ارادہ کیا ہے تو (15 دن اس کو ملیں گے ہی نہیں کہ8 ذُ و الحِجَّۃِ الحرام ) مِنٰی شریف ( اور 9 کو) عَرَفات شریف کو ضَرور جائیگا پھراِتنے دنوں تک (یعنی 15 دن مسلسل) مکّۂ معظّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں کیونکر ٹھہر سکتا ہے؟ مِنٰی شریف سے واپَس ہوکر نیَّت کرے تو صحیح ہے۔ جبکہ واقعی 15 یا زِیادہ دن مکّۂ معظّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں ٹھہرسکتا ہو ، اگرظنِّ غالِب ہو کہ 15دن کے اندر اندر مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً یا وطن کیلئے روانہ ہوجائے گا تو اب بھی مسافِر ہے {۵} تادمِ تحریرجدّہ شریف آبادی کے خاتِمے سے مکۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی آبادی کے آغازتک کا فاصِلہ بذریعہ سڑک 53 کلومیٹر اور بذریعہ ہوائی جہاز47کلومیٹر ہے۔اور جدّہ شریف کی آبادی کے خاتمے سے لے کر عرفات شریف تک ایک سڑک سے سفر 78کلومیٹر اور دیگر دو سڑکوں سے 80کلومیٹر کا سفر ہے ۔جبکہ مَطار (AIRPORT) سے ہوائی فاصِلہ 67کلومیٹر ہے۔ لہٰذا جدّہ شریف سیمکۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً جائیں تب بھی اور براہ راست عرفات شریف پہنچیں تب بھی وہ پوری نمازیں پڑھیں گے {۶} ہوائی جہاز میں فَرْض ، وِتر ، سُنَّتیں اور نَوافِل وغیرہ تمام نَمازیں دَورانِ پرواز پڑھ سکتے ہیں ، اِعادہ (یعنی دوبارہ پڑھنے) کی حاجت نہیں ۔فَرْض ، وِتْر اورسنَّتِ فجر قِبلہ رُو کھڑے ہو کر قاعِدے کے مطابِق ادا کیجئے۔ طیّارے کی دُم ، حمّام و کچن وغیرہ کے پاس کھڑے کھڑے نَماز پڑھنا ممکن ہو تا ہے۔ باقی سنَّتیں اور نوافِل دورانِ پرواز اپنی نِشَست پر بیٹھے بیٹھے بھی پڑھ سکتے ہیں ۔اس حالت میں قبلہ رُو ہونا شَرط نہیں ۔ (مزید معلومات کیلئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ’’ نماز کے اَحکام ‘‘ میں شامل رسالہ ’’ مسافر کی نماز کا مُطالعہ کیجئے)
رُکے ہیبت سے جب مجرم تو رحمت نے کہا بڑھ کر
چلے آؤ چلے آؤ یہ گھر رحمن کا گھر ہے
(ذوقِ نعت)
’’ کرم ‘‘ کے تین حُرُوف کی نسبت سے 3فرامینِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:
[1] حاجی اپنے گھر والوں میں سے چارسو کی شَفاعَت کرے گا اور گناہوں سے ایسا نکل جائے گا جیسے اُس دِن کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔ (مُسْنَدُ الْبَزَّار ج۸ص۱۶۹حدیث۳۱۹۶) [2] حاجی کی مغفِرت ہوجاتی ہے اور حاجی جس کے لئے اِستِغفار کرے اس کے لئے بھی مغفِرت ہے۔ (مَجْمَعُ الزَّوائِد ج۳ ص۴۸۳حدیث۵۲۸۷) [3] جو حج یا عُمرہ کیلئے نِکلا اور راستے میں مرگیا اُس کی پیشی نہیں ہوگی ، نہ حساب ہوگا اور اُس سے کہا جائے گا: اُدْخُلِ الْجَنَّۃَ یعنی تو جنَّت میں داخِل ہوجا۔ (اَلْمُعْجَمُ الْاَوْسَط ج ۴ ص ۱۱۱ حدیث ۸۸۳۵)
میرے آقااعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ’’ رسالۂ مبارکہ اَنْورُ البِشارَہ ‘‘ میں پیدل چلنے کی رغبت دِلاتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ ہوسکے تو پِیادہ (پیدل مکۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے مِنٰی ، عَرَفات وغیرہ) جاؤ کہ جب تک مَکَّۂ مُعَظَّمہ پلٹ کر آؤگے ہر قد م پر سات کروڑنیکیاں لکھی جائیں گی۔ یہ نیکیاں تَخْمِیْناً (یعنی اندازاً) اٹھتّر کھرب چالیس اَرَب آتی ہیں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فَضل اُس کے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صَدقے میں اِس اُمّت پر بے شمار ہے۔ ‘‘ (فتاوٰی رضویہ ج ۱۰ ص ۷۴۶ )
سگِ مدینہعُفِیَ عَنہ عرض کرتا ہے کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے پُرانے طویل راستے کا حساب لگایا ہے۔ اب چُونکہ مَکَّۂ مُعَظَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے مِنٰی شریف کے لئے پہاڑوں میں سُرَنگیں ( TUNNELS) نِکالی گئی ہیں اور پیدل چلنے والوں کے لئے راستہ مختصر اور آسان ہوگیا ہے اِس حساب سے نیکیوں کی تعداد میں بھی فرق واقِع ہو گا۔وَاللّٰہُ وَرَسُولُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
پیدل حاجی سے فرشتے گلے ملتے ہیں :
فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے: جب حاجی سُوار ہو کر آتے ہیں تو فِرِشتے ان سے مُصافَحہ کرتے (یعنی ہاتھ ملاتے) ہیں اور جو پیدل چل کر آتے ہیں فِرِشتے اُن سے مُعانَقہ کرتے (یعنی گلے ملتے ) ہیں ۔ (اِتحافُ السّادَۃ للزّبیدی ج۴ ص۴۶۵)
پارہ 2 سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ آیت نمبر 197میں ارشاد ِربّانی ہے: فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَۙ-وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ ترجَمۂ کنزالایمان: تو نہ عورتوں کے سامنے صحبت کا تذکرہ ہو ، نہ کوئی گناہ ، نہ کسی سے جھگڑا حج کے وقت تک ۔