جِعِرّانہ سے300انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے عُمرے کا احرام باندھا ہے ، سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جِعِرّانہ پر اپنا عصا مبارک گاڑا جس سے پانی کا چشمہ اُبلا جو نہایت ٹھنڈا اور میٹھا تھا (بلد الامین ص ۲۲۱ ، اخبار مکہ ، جزء ۵ص۶۲ ، ۶۹) مشہور ہے اُس جگہ پر کُنواں ہے۔سیِّدُنا ابنِ عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : حُضُورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے طائف سے واپَسی پر یہاں قِیام کیا اوریَہیں مالِ غنیمت بھی تقسیم فرمایا ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے 28شوالُ المکرم کو یہاں سے عُمرے کا احرام باندھا تھا۔ (بلد الامین ص ۲۲۰ ، ۲۲۱ ) اِس جگہ کی نسبت قُریش کی ایک عورت کی طرف ہے جس کا لقب جِعِرّانہ تھا ۔ (ایضاً ص۱۳۷) عوام اِس مقام کو ’’ بڑا عمرہ ‘‘ بولتے ہیں ۔یہ نہایت ہی پُرسوز مَقام ہے ، حضرتِ سیِّدُنا شیخ عبد الحقّ مُحدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی ’’ اخبارُ الاخیار ‘‘ میں نَقْل کرتے ہیں کہ میرے پیرو مرشدحضرتِ سیِّدُنا شیخ عبدُ الوہّاب مُتَّقی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی نے مجھے تاکید فرمائی ہے کہ موقع ملنے پر جِعِرّانہ (جِ۔عِرْ۔رانہ) سے ضَرور عُمرے کا احرام باندھنا کہ یہ ایسا مُتَبَرَّک مقام ہے کہ میں نے یہاں ایک رات کے مختصر سے حصّے کے اندر سو سے زائد بار مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا خواب میں دیدار کیا ہے اَلحمدُ للّٰہ علٰی اِحْسانِہٖ ۔ حضرتِ سیِّدُنا شیخ عبدُ الوہاب مُتَّقی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی کا معمول تھا کہ عمرے کا احرام باندھنے کیلئے روزہ رکھ کر پیدلجِعِرّانہ جایا کرتے تھے۔ (مُلَخَّص از اخبار الاخیار ص۲۷۸)
مزارِ مَیمُونہ : مدینہ روڈ پر ’’ نَوارِیہ ‘‘ کے قریب واقع ہے۔ تادمِ تحریر یہاں کی حاضِری کا ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ بس 2A یا13میں سُوار ہوجائیے ، یہ بس مدینہ روڑ پر تَنعِیم یعنی مسجدِ عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے گزرتی ہوئی آگے بڑھتی ہے ، مسجدُ الحرام سے تقریباً 17 کلومیٹر پر اِس کا آخِری اسٹاپ ’’ نَوارِیہ ‘‘ ہے ، یہاں اُتر جائیے اور پلٹ کر روڈ کے اُسی کَنارے پر مَکَّۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی طرف چلنا شُروع کیجئے ، دس یا پندرہ منَٹ چلنے کے بعد ایک پولیس چیک پوسٹ (نکتۂ تفتیش) ہے پھر مَوقِفِ حُجّاج بنا ہوا ہے اس سے تھوڑا آگے روڈ کی اُسی جانِب ایک چار دیواری نظر آئے گی ، یہیں اُمُّ المؤمنِین حضرتِ سیِّدَتُنا مَیمُونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا مزار فائضُ الانوار ہے۔ یہ مزار مبارَک سڑک کے بیچ میں ہے ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سڑک کی تعمیر کیلئے اِس مزار شریف کو شہید کرنے کی کوشش کی گئی تو ٹریکٹر (TRACTOR) اُلَٹ جاتا تھا ، ناچار یہاں چار دیواری بنا دی گئی۔ ہماری پیاری پیاری امّی جان سیِّدَتُنا مَیمُونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی کرامت مرحبا! ؎
اَہلِ اِسلام کی مادَرانِ شفیق بانُوانِ طہارت پہ لاکھوں سلام
’’ یا نبی! چشمِ کر ‘‘ کے گیارہ حروف کی نسبت سےمسجدُ الحرم میں ’’ نَمازِ مصطَفٰے ‘‘ کے 11 مقامات
{۱} بیتُ اللّٰہ شریف کے اَندر {۲} مَقامِ ابراہیم کے پیچھے {۳} مَطاف کے کَنارے پر حَجَرِ اَسوَد کی سیدھ میں {۴} حَطِیم اور بابُ الکَعبہ کے دَرمِیان رُکنِ عِراقی کے قریب {۵} مَقامِ حُفْرَہ پر جو بابُ الکعبہ اور حَطِیم کے دَرمِیان دیوارِ کعبہ کی جَڑ میں ہے۔ اِس مَقام کو ’’ مَقامِ اِمامتِ جبرائیل ‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ شَہَنشاہِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِسی مقام پر سیِّدُنا جبرائیلعَلَیْہِ السَّلَامکو پانچ نَمازوں میں اِمامت کا شَرَف بخشا۔ اِسی مُبارَک مَقام پر سیِّدُنا ابراہیم خَلِیْلُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ’’ تعمیرِ کعبہ ‘‘ کے وَقت مِٹّی کا گارا بنایا تھا {۶} بابُ الکَعبہ کی طرف رُخ کرکے۔ (دروازۂ کعبہ کی سیدھ میں نَماز ادا کرنا تمام اَطراف کی سیدھ سے افضل ہے [1]؎ ) {۷} میزابِ رَحْمت کی طرف رُخ کرکے۔ (کہاجاتا ہے کہ مزار ضیا بار میں سرکارِ عالی وَقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چہرۂ پُر انوار اِسی جانِب ہے) {۸} تمام حَطِیم میں خُصُوصاً میزابِ رَحْمت کے نیچے {۹ } رُکنِ اَسوَد اور رُکن یَمانی کے درمِیان {۱۰} رُکنِ شامی کے قریب اِس طرح کہ ’’ بابِ عُمرہ ‘‘ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پُشتِ اَقدَس کے پیچھے ہوتا۔ خواہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ’’ حَطِیم ‘‘ کے اَندر ہو کر نماز ادا فرماتے یاباہَر {۱۱} حضرتِ سیِّدُنا آدم صَفیُّ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے نَماز پڑھنے کے مقام پر جو کہ رُکنِ یَمانی کے دائِیں یا بائِیں طرف ہے اور ظاہِر تَر یہ ہے کہ مُصَلّٰیِ آدم ’’ مُسْتجَار ‘‘ پر ہے ۔ (کتا ب الحج ص۲۷۴)
رَوضَۃُ الجنّۃ: تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حُجرۂ مُبارَکہ (جس میں سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کامزارِ پُرانوارہے) اور مِنبرِ نور بار (جہاں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خُطبہ اِرشاد فرمایا کرتے تھے) کا درمیانی حصَّہ جس کا طُول (یعنی لمبائی) 22مِیٹر اور عَرْض ( چوڑائی) 15میٹر ہے رَوضَۃُ الجَنَّہ یعنی ’’ جنَّت کی کیاری ‘‘ ہے۔چُنانچِہ ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے: مَا بَیْنَ بَیْتِی وَمِنبَرِیْ رَوْضَۃٌ مِّنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ۔یعنیمیرے گھر اور مِنبر کی دَرمِیانی جگہ جنَّت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ ( بُخاری ج۱ ص ۴۰۲ حدیث ۱۱۹۵) عام بول چال میں لوگ اِسے ’’ رِیاضُ الْجَنَّہ ‘‘ کہتے ہیں مگر اَصْل لفظ ’’ رَوْضَۃُ الْجَنَّہ ‘‘ ہے۔
یہ پیاری پیاری کیاری تِرے خانہ باغ کی
سرد اِس کی آب و تاب سے آتش سَقَر کی ہے (حدائقِ بخشش شریف)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
مسجدِ قُبا : مدینۂطیّبہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے تقریباً تین کلومیٹر جُنوب مغرِب کی طرف ’’ قُبا ‘‘ نامی ایک قَدیمی گاؤں ہے جہاں یہ مُتَبَرَّک مسجِد بنی ہوئی ہے ، قراٰنِ کریم اور اَحادیثِ صَحِیحہ میں اِس کے فضائل نہایت اِہتِمام سے بیان فرمائے گئے ہیں ۔ عاشِقانِ رسول مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے درمِیانی چال چل کر پیدل تقریباً 40مِنَٹ میں مسجِد قُبا پہنچ سکتے ہیں ۔ بخاری شریف میں ہے: ’’ حُضورِ انور
[1] ۔۔۔ کہا جاتا ہے: پاک وہند دروازۂ کعبہ ہی کی سَمت واقع ہیں ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی اِحْسَانِہٖ ط