رفیق الحرمین

فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمہے : ایّام میں بہترین وہ یومِ عرفہ ہے  جوجمعہ  کے مُوافق ہو جائے اور اس روز کا حج اُن ستَّر حجو ں سے افضل ہے جو جمعہ کے دن نہ ہوں ۔  (فتح الباری ،  ج۹ ، ص۲۳۱ تحت الحدیث: ۴۶۰۶)   

عَرَب شریف میں کام کرنے والوں کے لئے

سُوال: اگرمکّۃُ المکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًمیں کام کرنے والے مَثَلاً ڈرائیور یا وہاں کے باشندے وغیرہ روزانہ بار بار  ’’  طائف شریف ‘‘  جائیں تو کیا ہر بار واپسی میں انھیں روزانہ عمرے وغیرہ کا اِحرام باندھنا ضروری ہے ؟

جواب: یہ قاعدہ ذِہن نشین کر لیجئے کہ اَہلِ  مَکَّہ اگرکسی کام سے  ’’  حُدُودِ حَرَم ‘‘ سے باہَر مگر مِیقات کے اندر   (مَثَلاً جَدَّہ شریف)  جائیں تو اُنھیں واپسی کے لئے اِحرام کی حاجت نہیں اوراگر  ’’  مِیقات ‘‘ سے باہَر  (مَثَلاًمدینۂ پاک ، طائف شریف رِیاض وغیرہ)   جائیں تو اب بغیراِحرام کے  ’’  حُدُودِ حرم ‘‘  میں واپس آنا جائز نہیں ۔ڈرائیورچاہے دن میں کئی بار آنا جانا کرے ہربار اُس پر حج یا عمرہ واجب ہوتا رہے گا۔ بِغیر احرام کیمکّۃُ المکرَّمہ زَادَھَا اللہُ  شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًآئے گا تو دم واجب ہو گا اگراِسی سال میقات سے باہَر جاکراحرام  باندھ لے تودم ساقط ہو جائیگا۔

احرام نہ باندھنا ہوتو حیلہ

سُوال: اگر کوئی شخص جَدَّہ شریف میں کام کرتا ہو تو اپنے وطن مَثَلاً پاکستان سے کام کے لئے جَدَّہ شریف آیاتو کیا اِحرام لازِمی ہے؟

جواب: اگر نیَّت ہی جَدَّہ شریف جانے کی ہے تو اب اِحرام کی حاجت نہیں بلکہ اب جَدَّہ شریف سے مَکَّۃُ المُعَظَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًبھی جانا ہو جائے تو اِحرام کے بِغیرجاسکتا ہے۔لہٰذا جو شخصمکّۃُ المکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًمیں بغیر اِحرام جاناچاہتاہو وہ حیلہ کرسکتاہے بشرطیکہ واقِعی اُس کا اِرادہ پہلے مَثَلاً جَدَّہ شریف جانے کا ہو اور مَکَّۂ مُعَظَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًحج و عمرے کے اِرادے سے نہ جاتا ہو۔ مَثَلاً تجارت کے لئے جَدَّہ شریف جاتا ہے اور وہا ں سے فارِغ ہو کر مکّۃُالمکرَّمہزَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً  کا اِرادہ کیا۔ اگر پہلے ہی سے مکّۂ پاک زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکا اِرادہ ہے تو بغیر اِحرام نہیں جاسکتا۔ جو شخص دوسرے کی طرف سے حجِّ بَدَل کو جاتا ہے اُسے یہ حیلہ جائز نہیں ۔

عُمرہ یا حج کے لئے سُوال کرنا کیسا؟

سُوال: بعض غریب عُشّاق عمرہ یاسفرحج کے لئے لوگوں سے مالی اِمداد کا سُوال کرتے ہیں  ،  کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب: حرام ہے۔ صدرُالافاضل مولانانعیم ُالدِّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِی نَقْل کرتے ہیں :   ’’  بعض یَمَنی حج کے لئے بے سروسامانی کے ساتھ روانہ ہوتے تھے اور اپنے آپ کو مُتَوَکِّل  (یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّپر بھروسا رکھنے والا)   کہتے تھے اور مَکَّۂ مکرّمہ پہنچ کر سُوال شروع کردیتے اور کبھی غَصب وخیانت کے بھی مُرتکِب ہوتے ،  اُن کے بارے میں یہ آیتِ مقدَّسہ نازِل ہوئی اور حُکم ہُوا کہ توشہ   (یعنی سفر کے اَخراجات)  لے کر چلو اَوروں پر بار نہ ڈالو ،  سُوال نہ کرو کہ بہتر توشہ  (یعنی زادِ راہ)   پرہیزگاری ہے۔ ‘‘   (خزائنُ العرفان  ، ص۶۷مکتبۃ المدینہ

چُنانچِہ پارہ  2سُوۡرَۃُالۡبَقَرہآیت نمبر 197میں ارشادِ ربُّ العباد ہوتا ہے:

 وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰى  (پ ۲ ،  البقرہ۱۹۷) 

تَرجَمَۂ کنزُالایمان:  اور توشہ ساتھ لو کہ سب سے بہتر توشہ پرہیزگاری ہے۔

                        سُلطانِ مدینہ ،  راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ باقرینہ ہے:  ’’  جو شخص لوگوں سے سُوال کرے حالانکہ نہ اُسے فاقہ پہنچا نہ اِتنے بال بچے ہیں جن کی طاقَت نہیں رکھتا تو قِیامت کے دِن اِس طرح آئے گا کہ اُس کے مُنہ پَر گوشت نہ ہوگا۔ ‘‘   (شُعَبُ الْاِیْمان  ، ج۳ ، ص۲۷۴ ، حدیث: ۳۵۲۶) 

                        مدینے کے دیوانو!بس صبر کیجئے  ،  سُوال کی ممانعت میں اِس قَدَر اِہتمام ہے کہ فقہا ئے کرام  رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں :  غسل کے بعد اِحرام باندھنے سے پہلے اپنے بد ن پر خوشبو لگایئے بشرطیکہ اپنے پاس موجود ہو ،  اگر اپنے پاس نہ ہو تو کسی سے طلب نہ کیجئے کہ یہ بھی سُوال ہے۔     (رَدُّالمُحتار ، ج ۳  ، ص ۵۵۹) 

جب بُلایا آقا نے                                        خود ہی انتِظام ہو گئے

                                                صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب                                                      صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد 

عُمرے کے وِیزے پر حج کیلئے رُکنا کیسا؟

سُوال: بعض لوگ اپنے وطن سے رَمَضانُ المبارَک میں عمرے کا وِیزا لے کر حَرَمَیْن طَیِّبَیْنزَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًجاتے ہیں  ، وِیزا کی مُدَّت ختم ہوجانے کے باوُجُود وَہیں رہتے ہیں یاحج کر کے وطن واپس جاتے ہیں اُن کا یہ فِعل شرعاً دُرُست ہے یا نہیں ؟

جواب:  دُنیا کے ہر ملک کا یہ قانون ہے کہ بِغیر وِیزا کے کسی غیرملکی کو رُکنے نہیں دیا  جاتا۔ حَرَمَیْنِ طَیِّبَیْن زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًمیں بھی یہی قاعِدہ ہے۔ مُدَّتِ وِیزاختم ہونے کے بعد رُکنے والا اگر پولیس کے ہاتھ لگ جائے  ،  تو اب چاہے وہ اِحرام کی حالت میں ہی کیوں نہ ہو اُسے قید کر لیتے ہیں  ،  نہ اُسے عمرہ کر نے دیتے ہیں نہ ہی حج ،  سزا دینے کے بعد  ’’  خُرُوج ‘‘  لگاکر اُسے اُس کے وَطن روانہ کردیتے ہیں ۔یاد رہے ! جس قانون کی خلاف ورزی کرنے پر ذلّت  ،  رشوت اور جھوٹ وغیرہ آفات میں پڑنے کا اندیشہ ہو اُس قانون کی خلاف ورزی جائزنہیں ۔چُنانچِہ میرے آقااعلیٰ حضرت  ، امامِ اہلِسنّت  ،  مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں :  ’’  مُباح   (یعنی جائز)   صورَتوں میں سے بعض   (صورَتیں )   قانونی طور پر جُرم ہوتی ہیں اُن میں مُلَوَّث ہونا   (یعنی ایسے قانون کی خِلاف ورزی کرنا )   اپنی ذات کو اذیّت وذلّت کے لئے پیش کرنا ہے اور وہ ناجائز ہے۔  (فتاوٰی رضویہ ،  ج ۱۷ ، ص۳۷۰لہٰذا

Index