(یعنی فخر) فرماتا ہے۔ (مسلمص ۷۰۳ حدیث ۱۳۴۸ ) {۲} عرفے سے زیادہ کسی دن میں شیطان کو زیادہ صغیر و ذلیل و حقیر اورغَیظ (یعنی سخت غصّے) میں بھرا ہوا نہیں دیکھا گیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دن میں رَحمت کا نُزُول اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کا بندوں کے بڑے بڑے گناہ مُعاف فرمانا شیطان دیکھتا ہے۔ (موطّا امام مالک ج۱ ص ۳۸۶حدیث ۹۸۲)
کسی نے جب عورتوں کو دیکھا: ایک شخص نے عرفہ کے دن عورَتوں کی طرف نظر کی ، رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا: ’’ آج وہ دن ہے کہ جو شخص کان اور آنکھ اور زَبان کو قابو میں رکھے ، اُس کی مغفِرت ہوجائے گی۔ ‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ ص۴۶۱حدیث ۴۰۷۱)
یا الٰہی حج کروں تیری رِضا کے واسِطے
کر قبول اِس کو محمد مصطَفٰے کے واسطے
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وسلَّم
عرفات میں کنکروں کوگواہ کرنے کی ایمان افروز حِکایت: حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم واسِطی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نے ایک بار حج کے موقع پر میدانِ عَرَفات میں سات کنکر ہاتھ میں اٹھائے اور اُن سے فرمایا: اے کنکرو! تم گواہ ہوجاؤ کہ میں کہتا ہوں : ’’ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ ‘‘ ترجمہ : اللہ تَعَالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وسلَّم) اس کے بندہ ٔخاص اور رسول ہیں ۔پھر جب سوئے تو خواب میں دیکھا کہمَحشر برپا ہے اور حساب کتاب ہورہا ہے ، ان سے بھی حساب لیا جاتا ہے اور حُکمِ دوزخ سنایا جاتا ہے ، اب فِرِشتے سوئے جہنَّم لیے جارہے ہیں جب جہنَّم کے دروازے پر پہنچتے ہیں تو اُن سات کنکروں میں سے ایک کنکر دروازے پر آکر روک بن جاتا ہے پھر دوسرے دروازے پر پہنچے تو دوسرا کنکر اِسی طرح دروازے کے آگے آگیا ، یونہی جہنَّم کے ساتوں دروازوں پر ہوا پھر ملائکہ عرشِ مُعلّٰی کے پاس لے کر حاضِر ہوئے۔ اللہ تَعَالٰی نے ارشاد فرمایا : اے ابراہیم ! تو نے کنکروں کو اپنے ایمان پر گواہ رکھا تو ان بے جان پتَّھروں نے تیرا حقّ ضائِع نہ کیا ، تو میں تیری گواہی کا حقّ کیسے ضائِع کرسکتا ہوں ! پھر اللہ تبارَکَ وَتَعالیٰ نے فرمان جاری کیا کہ اسے جنَّت کی طرف لے جاؤ چُنانچِہ جب جنَّتکی طرف لے جایا گیا توجنَّت کا دروازہ بند پایا ، کِلمۂ پاک کی گواہی آئی اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہجنَّتمیں داخِل ہوگئے۔ (دُرۃ الناصحین ص ۳۷)
خوش نصیب حاجیو اور حجّنو!: آپ بھی میدانِ عَرَفات میں سات کنکر اُٹھا کر مذکورہ کلمہ یا کلمۂ شہادت پڑھ کر اُن کو گواہ بنا کر واپَس وَہیں رکھ دیجئے نیز دنیا میں جہاں بھی ہوں موقع ملنے پر دَرَختوں ، پہاڑوں ، دریاؤں ، نہروں اور بارِش کے قطروں وغیرہ وغیرہ کو کلمہ شریف سُنا کر اپنے ایمان کا گواہ بناتے رہئے۔
’’ بارانِ رَحمت ‘‘ کے نُو حُرُوف کی نسبت سے وُقوفِ عرفات شریف کے 9 مَدَنی پھُول
{۱} جب دوپَہَر قریب آئے تو نہاؤ کہ سُنَّتِ مُؤَکّدہ ہے اورنہ ہو سکے تو صِرْف وُضو۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص ۱۱۲۳) {۲} آج یعنی9ذُوالْحِجَّہ کو دوپہر ڈھلنے (یعنی نَمازِ ظہر کا وَقت شروع ہونے) سے لے کر دسویں کی صبحِ صادِق کے دَرمِیان جو کوئی اِحرام کے ساتھ ایک لمحے کے لئے بھی عَرَفات ِپاک میں داخِل ہواوہ حاجی ہوگیا ، آج یہاں کا وُقوف حج کا رُکنِ اعظم ہے {۳} عَرَفات شریف میں وَقتِ ظُہرمیں ظُہْرو عَصْر مِلاکر پڑھی جاتی ہے [1]؎ مگر اِس کی بعض شرائِط ہیں {۴} حاجی کو آج بے روزہ ہونا اور ہر وَقْت با وُضو رہناسُنَّت ہے {۵} جَبَلِ رَحْمت کے قریب جہاں سیاہ پتّھر کا فرش ہے وہاں وُقُوف کرنا افضل ہے {۶} بعض لوگ ’’ جَبَلِ رَحْمت ‘‘ کے اُوپر چڑھ جاتے اور وہاں سے کھڑے کھڑے رُومال ہلاتے رہتے ہیں ، آپ ایسا نہ کیجئے اور اُن کی طرف بھی دِل میں بُرا خیال نہ لائیے ، آج کا دِن اَوروں کے عَیب دیکھنے کا نہیں ، اپنے عَیبوں پرشَرْمْساری اورگِریہ وزاری کا ہے {۷} وُقوف کے لیے کھڑا رہنا افضل ہے شرط یا واجِب نہیں ، بیٹھا رہا جب بھی وُقُوف ہوگیا وُقوف میں نیّت اور رُو بقبلہ ہونا افضل ہے {۸} نمازوں کے بعد فوراً وُقوف کرناسنَّت ہے۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص ۱۱۲۴ ) {۹} مَوقِف (یعنی ٹھہرنے کی جگہ) میں ہر طرح کے سائے حتّٰی کہ چَھتری لگانے سے بچئے ، ہاں جو مجبور ہے وہ معذور ہے۔ (ایضاًص۱۱۲۸) چھتری لگائیں تو مَرْد یہ احتیاط فرمائیں کہ سر سے مَس ( TOUCH) نہ ہو ورنہ کفّارے کی صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں ۔
اِمامِ اَہلسُنَّت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خاص نصیحت: بدنگاہی ہمیشہ حرام ہے نہ کہ اِحرام میں ، نہ کہ مَوقِف یا مسجدُ الحرام میں ، نہ کہ کعبے کے سامنے ، نہ کہ طَوافِ بیتُ اللّٰہ میں ۔ یہ تمہارے اِمتِحان کا موقع ہے ، عورَتوں کو حُکم دیا گیا ہے کہ یہاں مُنہ نہ چھپاؤ اور تمہیں حُکم دیا گیا ہے کہ اُن کی طرف نگاہ نہ کرو ، یقین جانو کہ یہ بڑے عزّت والے بادشاہ کی باندیاں ہیں اور اِس وَقت تم اوروہ سب خاص دربار میں حاضِر ہو ، بِلا تَشبِیہ شیر کا بچّہ اُس کی بغل میں ہو اُس وَقت کون اُس کی طرف نگاہ اُٹھا سکتاہے تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ واحدِ قہّار کی کنیزیں کہ اُس کے دربارِ خاص میں حاضِر ہیں ، اُن پر بدنگاہی کس قَدَر سخت ہوگی۔ وَ لِلّٰهِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰىؕ- (ترجَمۂ کنزالایمان: اور اللّٰہ کی شان سب سے بلند ۔ (پ ۱۴ ، النحل : ۶۰) ) ہاں ہاں !ہوشیار!اِیمان بچائے ہوئے ، قلب ونگاہ سنبھالے ہوئے ، حَرَم (یاد رہے! عرفات حدودِ حرم سے باہَرہے) وہ جگہ ہے جہاں گناہ کے اِرادے سے بھی پکڑا جاتاہے اورایک گناہ لاکھ کے برابر ٹھہرتا ہے۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ خیر کی توفیق دے ۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۱۰ ص۷۵۰) اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وسلَّم
گناہوں سے مجھ کو بچا یاالٰہی
بُری عادتیں بھی چُھڑا یاالٰہی (وسائلِ بخشش ص ۷۹)
عرفات شریف کی دُعائیں (عَرَبی)
[1] : دوپَہَر کے وَقت دَورانِ وُقوف مَوقِف میں مندَرَجۂ ذَیل کلمۂ توحید ، سورہ ٔاِخلاص شریف اورپھر اس کے بعد دِیا ہُوا دُرُود شریف سو سو بار پڑھنے والے کی بَحکمِ حدیث بخشش کردی
[1] ۔۔۔ آپ اپنے اپنے خیموں ہی میں ظہر کی نماز ظہر کے وقت میں اور عصر کی نماز عصر کے وقت میں باجماعت ادا کیجئے۔