اَو پائے نظر ہوش میں آ ، کُوئے نبی ہے آنکھوں سے بھی چلنا تو یہاں بے ادبی ہے
جنت البقیع: جنَّتُ البَقِیع شریف نیز جنَّتُ المَعلیٰ (مَکّہ مکرّمہ) دونوں مقدّس قبرِستانوں کے مقبروں اور مزاروں کو شہید کردیاگیا ہے۔ ہزارہا صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور بے شمار اَہلبیتِ اَطہار رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن و اَولیاء کِبارو عُشّاقِ زار رَحِمَہُمُ اللہُ الْغَفَّارکے مزارات کے نُقوش تک مِٹا دئیے گئے ہیں ۔ حاضِری کیلئے اندر داخِلے کی صورت میں آپ کا پاؤں مَعَاذَاللہ عَزَّوَجَلَّ کسی بھی صَحابی یا عاشقِ رسول کے مزار شریف پر پڑسکتا ہے!شَرعی مسئلہ یہ ہے کہ عام مسلمانوں کی قبروں پر بھی پاؤں رکھنا حرام ہے۔ ’’ رَدُّالْمُحتار ‘‘ میں ہے: (قبرِستان میں قبریں مِٹا کر) جونیاراستہ نکالا گیاہو اُس پرچلنا حرام ہے ۔ (رَدُّالْمُحتارج۱ص۶۱۲) بلکہ نئے راستے کا صِرف گمان ہو تب بھی اُس پر چلنا ناجائز وگناہ ہے۔ (دُرِّمُختار ج۳ص۱۸۳ ) لہٰذا مَدَنی التجا ہے کہ باہَر ہی سے سلام عَرض کیجئے اور وہ بھیجنَّتُ البَقِیع کے صدر دروازے (MAIN ENTRANCE) پر نہیں بلکہ اُس کی چار دیواری کے باہَر اُس سَمت کھڑے ہوں جہاں سے قبلے کو آپ کی پیٹھ ہو تا کہ مَدفُونینِ بَقِیع کے چِہرے آپ کی طرف رہیں ۔اب اس طرح
اَہلِ بَقِیع کو سلام عَرض کیجئے
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ فَاِنَّاۤ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ بِکُمْ لَا حِقُوْنَ ط اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِاَ ھْلِ الْبَقِیْعِ الْغَرْقَدِ ط اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَ لَھُمْ ط
ترجمہ: تم پر سلام ہو اے مومنوں کی بستی میں رہنے والو!ہم بھیاِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّتم سے آملنے والے ہیں ۔اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!بقیعِ غَرقد والوں کی مغفرت فرما۔اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!ہمیں بھی مُعاف فرما اور انہیں بھی مُعاف فرما۔
دِلوں پر خنجر پھر جاتا: آہ!ایک وَقت وہ تھاکہ جب حِجازِ مقدَّس میں اہلسنّت کی ’’ خدمت ‘‘ کا دَور تھا اوراُس وَقت کے خَطِیب واِمام بھی عاشقانِ رسول ہُوا کرتے تھے ، جمعہ کے روز دَورانِ خُطبہ جب خَطِیب صاحِب مسجدِ نبوی شریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں روضۂ اَنور کی طرف ہاتھ سے اِشارہ کرتے ہوئے اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی ھٰذا النَّبِیط (یعنی اِس نبی محترم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرُود وسلام ہو) کہتے تو ہزاروں عاشقانِ رسول کے دِلوں پر خنجر پھرجاتا اور وہ اَز خود رَفتگی کے عالم میں رونے لگ جایاکرتے۔
الوداعی حاضری: جب مدینہ مُنوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًسے رُخصت ہونے کی جاں سوز گھڑی آئے روتے ہوئے اورنہ ہوسکے تو رونے جیسا مُنہ بنائے مُواجَھَہ شریف میں حاضِر ہو کررورو کرسلام عرض کیجئے اورپھر سوزو رِقّت کے ساتھ یوں عرض کیجئے :
اَلْوَدَاعُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِط اَلْوَدَاعُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ط اَلْوَدَاعُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ط اَلْفِرَاقُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ط اَلْفِرَاقُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ط اَلْفِرَاقُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ط اَلْفِرَاقُ یَا حَبِیْبَ اللّٰہِ ط اَلْفِرَاقُ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ ط اَ لْاَمَانُ یَا حَبِیْبَ اللّٰہِ ط لَا جَعَلَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی اٰخِرَ الْعَھْدِ مِنْكَ وَلَا مِنْ زِیَارَتِكَ وَلَا مِنَ الْوُقُوْفِ بَیْنَ یَدَیْكَ اِلَّا مِنْ خَیْرٍ وَّعَافِیَۃٍ وَّصِحَّۃٍ وَّسَلَامَۃٍ اِنْ عِشْتُ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالٰی جِئْتُكَ وَ اِنْ مِّتُّ فَاَوْدَعْتُ عِنْدَكَ شَھَادَتِیْ وَاَمَانَتِیْ وَعَھْدِیْ وَ مِیْثَاقِیْ مِنْ یَّوْمِنَا ھٰذَا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ وَھِیَ شَھَادَۃُ اَنْ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحَدَہٗ لَا شَرِیْكَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُـوْلُہٗ ط (سُبْحٰنَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَۚ (۱۸۰) وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِیْنَۚ (۱۸۱) وَ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۠ (۱۸۲) ) اٰمِیْنَ ، اٰمِیْنَ ، اٰمِیْنَ ، یَا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ بِحَقِّ طٰہٰ وَ یٰـسٓ
آہ! اب وَقتِ رُخصت ہے آیا اَلوَداع تاجدارِ مدینہ
صدمۂ ہِجر کیسے سَہوں گا اَلوَداع تاجدارِ مدینہ
بے قراری بڑھی جارہی ہے ہِجر کی اب گھڑی آرہی ہے
دِل ہُوا جاتا ہے پارہ پارہ اَلوَداع تاجدارِ مدینہ
کس طرح شوق سے میں چلا تھا دِل کا غُنچہ خوشی سے کھلا تھا
آہ! اب چھوٹتا ہے مدینہ اَلوَداع تاجدارِ مدینہ
کُوئے جاناں کی رنگیں فَضاؤ! اے مُعطَّر مُعَنبر ہَواؤ!
لو سلام آخِری اب ہمارا اَلوَداع تاجدارِ مدینہ
کاش! قِسمَت مِرا ساتھ دیتی موت بھی یاوَری میری کرتی
جان قدموں پہ قربان کرتا اَلوَداع تاجدارِ مدینہ
سوزِ اُلفت سے جلتا رہوں میں عِشق میں تیرے گھلتا رہوں میں
مجھ کو دیوانہ سمجھے زمانہ اَلوَداع تاجدارِ مدینہ