فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم ہے: ’’ بے شک جہنَّم میں ایک وادی ہے جس سے جہنَّم روزانہ چار سو مرتبہ پناہ مانگتا ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے یہ وادی اُمّتِ محمدیہ عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اُن رِیاکاروں کے لئے تیّار کی ہے جو قراٰنِ پاک کے حافِظ ، غیرُ اللّٰہ کے لئے صَدَقہ کرنے والے ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے گھر کے حاجی اور راہ ِخدا عَزَّوَجَلَّ میں نکلنے والے ہوں گے۔ ‘‘ (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیرج۱۲ص۱۳۶حدیث ۱۲۸۰۳)
حاجیوں کی ریا کاری کی دو مثالیں : نیکی کی دعوت حصّہ اوّل صَفْحَہ 76پر ہے: {1} اپنے حج وعُمرے کی تعداد ، تِلاوتِ قراٰن کی یومیہ مقدار ، رَجَبُ المُرجَّب و شعبانُ المعظَّم کے مکمَّل اور دیگر نفلی روزوں ، نوافِل ، دُرُود شریف کی کثرت وغیرہ کااِس لئے اظہار کرنا کہ واہ واہ ہو اور لوگوں کے دلوں میں احتِرام پیدا ہو {2} اِس لئے حج کرنا یا اپنے حج کا اظہار کرناکہ لوگ حاجی کہیں ، ملاقات کیلئے حاضِر ہوں ، گِڑگڑاکر دعاؤں کی التجائیں کریں ، گجرے پہنائیں ، تحائف وغیرہ پیش کریں۔ (اگر اپنی عزّت کروانا یا تحفے وغیرہ حاصِل کرنا مقصود نہ ہو بلکہ تحدیثِ نعمت وغیرہ اچّھی اچّھی نیّتیں ہوں توحج و عمرے کااظہار کرنے ، عزیزوں اور رشتے داروں کو جمع کرنے اور ’’ محفلِ مدینہ ‘‘ سجانے کی مُمانَعت نہیں بلکہ کارِ ثوابِ آخِرت ہے) (رِیا کاری کے بارے میں تفصیلی معلومات کیلئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ ’’ نیکی کی دعوت ‘‘ حصّہ اوّل صفحہ 63تا 106کامُطالَعہ کیجئے)
مِرا ہر عمل بس ترے واسطے ہو
کر اِخلاص ایسا عطا یاالٰہی (وسائلِ بخشش ص۷۸)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
یاد رکھنے کی 55 اِصْطِلاحات: حاجی صاحِبان مندرَجۂ ذَیل اِصطِلاحات اور اَسْمائے مَقامات وغیرہ ذِہن نَشین فرما لیں گے تو اِس طرح آگے مُطالَعَہ کرتے ہوئے اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ آسانی پائیں گے۔
[1] اَشْھُرِحَج: حج کے مہینے یعنی شَوَّالُ الْمُکَرَّم و ذُوالْقَعْدہ دو نوں مکمّل اور ذُوالْحِجَّہ کے اِبتدائی دَس دِن۔
[2] اِحرام: جب حج یا عُمرہ یا دونوں کی نیَّت کرکیتَلْبِیَہ پڑھتے ہیں تو بعض حَلال چیزیں بھی حرام ہوجاتی ہیں ، اِس کو ’’ اِحرام ‘‘ کہتے ہیں اورمَجازاًاُن بِغیر سِلی چادروں کو بھی اِحرام کہا جاتا ہے جنھیں مُحرِم استِعمال کرتا ہے۔
[3] تَلْبِیَہ: یعنی لَبَّیْکَ ط اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک۔۔۔۔ ، اِلَخپڑھنا۔
[4] اِضطِباع: اِحرام کی اُوپر والی چادر کوسیدھی بغل سے نکال کر اِس طرح اُلٹے کندھے پر ڈالنا کہ سیدھا کندھا کُھلا رہے۔
[5] رَمَل: اَکڑ کر شانے (کندھے) ہِلاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتے ہوئے قدرے (یعنی تھوڑا) تیزی سے چلنا۔
[6] طَواف: خانۂ کعبہ کے گرد سات چکّر لگانا ، ایک چکّر کو ’’ شَوْط ‘‘ کہتے ہیں ، جمع ’’ اَشْواط ‘‘ ۔
[7] مَطاف : جس جگہ میں طواف کیا جاتا ہے۔
[8] طَوافِ قُدُوْم: مَکَّۂ مُعَظَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں داخِل ہونے پر کیا جانے والا وہ پہلا طواف جو کہ ’’ اِفراد ‘‘ یا ’’ قِران ‘‘ کی نیَّت سے حج کرنے والوں کے لئے سنّتِ مُؤَکَّدہ ہے۔
[9] طَوافِ زِیارۃ: اِسے طوافِ اِفاضہ بھی کہتے ہیں ، یہ حج کا رُکن ہے ، اِس کا وَقت 10ذُوالْحِجَّۃِ الحرام کی صبحِ صادق سے 12 ذُوالْحِجَّۃِ الحرام کے غُروبِ آفتاب تک ہے مگر 10ذُوالْحِجَّۃِ الحرامکو کرنا اَفضَل ہے۔
[10] طَوافِ وَداع: اسے ’’ طواف ِ رخصت ‘‘ اور ’’ طوافِ صَدر ‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ یہ حج کے بعد مَکَّۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے رُخصت ہوتے وَقت ہر آفاقی حاجی پر واجِب ہے۔
[11] طَوافِ عُمْرَہ: یہ عُمرہ کرنے والوں پر فرض ہے۔
[12] اِسْتِلام: حجراَ سود کو بوسہ دینا یا ہاتھ یا لکڑی سے چُھو کر ہاتھ یا لکڑی کو چوم لینا یا ہاتھوں سے اُس کی طر ف اِشارہ کر کے اُنہیں چو م لینا۔
[13] سَعْی: ’’ صَفا ‘‘ اور ’’ مَروَہ ‘‘ کے مابَین (یعنی درمیان) سات پھیرے لگا نا (صَفا سے مَروہ تک ایک پھیرا ہوتا ہے یوں مَروہ پر سات چکَّر پورے ہوں گے)
[14] رَمی: جَمرات (یعنی شیطانوں ) پر کنکریاں مارنا۔
[15] حَلْق: اِحرام سے باہَر ہونے کے لئے حُدُودِ حرم ہی میں پُورا سَر مُنڈوانا ۔
[16] قَصر: چوتھائی (4/1) سر کا ہر بال کم اَزکم اُنگلی کے ایک پَورے کے برابر کتروانا ۔