رفیق الحرمین

میں جہاں بھی رہوں میرے آقا          ہو نظر میں مدینے کا جلوہ

اِلتجا میری مقبول فرما اَلوَداع تاجدارِ مدینہ

کچھ نہ حُسنِ عمل کر سکا ہوں     نَذْر چند اَشک میں کر رہا ہوں

بس یِہی ہے مِرا کُل اَثاثہ        اَلوَداع تاجدارِ مدینہ

آنکھ سے اب ہُوا خون جاری   رُوح پر بھی ہے اب رَنج طاری

جلد عطّاؔر کو پھر بُلانا  اَلوَداع تاجدارِ مدینہ

اب پہلے کی طرح شیخینِ کریمین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی پاک بارگاہوں میں بھی سلام عرض کیجئے  ،  خوب رو رو کر دعائیں مانگئے باربار حاضِری کا سُوال کیجئے اور مدینے میں ایمان وعافیت کے ساتھ موت اور جنَّتُ البَقِیع میں مدفن کی بھیک مانگئے۔بعدِ فراغت روتے ہوئے اُلٹے پاؤں چلئے اور بار بار دَربارِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس طرح حَسرَت بھری نظر سے دیکھئے جس طرح کوئی بچّہ اپنی ماں کی گود سے جُدا ہونے لگے تو بِلک بِلک کر روتا اور اُس کی طرف  اُمّید بھری نگاہوں سے دیکھتا ہے کہ ماں اب بُلائے گی ،  کہ اب بُلائے گی اور بُلاکر شَفقَت سے سینے سے چِمٹا لے گی۔ اے کاش! رُخصت کے وَقت ایسا ہوجائے تو کیسی خوش بختی ہے ،  کہ مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بلا کر اپنے سینے سے لگالیں اور بے قرار رُوح قدموں میں قربان ہو جائے۔

ہے تمنّائے عطاؔر یارب                     اُن کے قدموں میں یوں موت آئے

جھوم کر جب گرے میرا لاشہ             تھام لیں بڑھ کے شاہِ مدینہ

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !  صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

تُوبُوا اِلَی اللہ!           اَسْتَغْفِرُاللہ                              

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !   صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

مکۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی زِیارَتیں

ولادت گاہِ سرور عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ : حضرتِ علّامہ قطب الدّین عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْمُبِینفرماتے ہیں :  حُضُور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی ولادت گاہ پر دُعا قبول ہوتی ہے۔  (بلدالامین ص۲۰۱)   یہاں پہنچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ کوہِ مروَہ کے کسی بھی قریبی دروازے سے باہَر آجایئے۔سامنے نَمازیوں کیلئے بَہُت بڑا اِحاطہ بناہوا ہے ،  اِحاطے کے اُس پار یہ مکانِ عالیشان اپنے جلوے لُٹا رہا ہے ،  اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ دُور ہی سے نظر آجائے گا۔ خلیفہ ہارون رشید علیہ رَحمَۃُ اللّٰہِ المجیدکی والِدۂ محترمہرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہا نے یہاں مسجِد تعمیر کروائی تھی۔ آجکل اس مکانِ عَظَمت نشان کی جگہ لائبر یری قائم ہے اوراس پر یہ بورڈلگاہواہے:   ’’  مَکْتَبَۃُ مَکَّۃَ الْمُکَرَّمَۃ ‘‘

جَبَلِ ابو قبیس:

  یہ دُنیا کا سب سے پہلاپہاڑ ہے ، مسجِد الحرام کے باہَر صَفا ومَروہ کے قریب واقِع ہے۔اِس پہاڑ پر دُعاقَبول ہوتی ہے  ،  اہلِ مکّہ قَحط سالی کے موقع پر اس پر آ کر دُعا مانگتے تھے۔حدیثِ پاک میں ہے کہ حَجرِ اَسوَد جنَّت سے یَہیں نازِل ہُوا تھا   (الترغیب والترہیب  ، ج۲ ، ص۱۲۵ ، حدیث: ۲۰اِس پہاڑ کو  ’’  اَلاَْمین  ‘‘  بھی کہا گیا ہے کہ  ’’ طوفانِ نوح  ‘‘ میں حجرِ اسود اِس پہاڑ پربحفاظت تمام تشریف فرما رہا ،  کعبۂ مشرَّفہ کی تعمیر کے موقع پراِس پہاڑ نے حضرتِ سیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو پکار کر عرض کی:  ’’  حجرِ اَسوَد اِدھر ہے۔ ‘‘   (بلدالامین ص۲۰۴بتغیر قلیل)   منقول ہے :   ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اِسی پہاڑ پر جلوہ اَفروز ہو کر چاند کے دو ٹکڑے فرمائے تھے۔ چُونکہ مَکَّۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًپہاڑوں کے دَرمِیان گھرا ہُوا ہے چُنانچِہ اس پر سے چاند دیکھا جاتا تھاپہلی رات کے چاند کو ہِلال کہتے ہیں لہٰذا اس جگہ پر بَطورِ یادگارمسجدِ ہِلال تعمیر کی گئی۔ بعض لوگ اِسے مسجدِبِلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکہتے ہیں۔ وَاللّٰہُ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم عَزَّ وَجَلَّ وصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ۔ پہاڑ پر اب شاہی مَحَل تعمیر کردیا گیا ہے ،  اوراب اُس مسجد شریف کی زیارت نہیں ہو سکتی ۔ ۱۴۰۹؁ ھ کے موسمِ حج میں اِس مَحَل کے قریب بم کے دھماکے ہوئے تھے اور کئی حُجّاجِ کرام نے جامِ شہادت نوش کیا تھا ،  اِس لئے اب مَحَل کے گرد سخت پہرا رہتا ہے۔مَحَل کی حفاظت کے پیشِ نظر اِسی پہاڑ کی سُرنگوں میں بنائے ہوئے وُضو خانے بھی خَتْم کر دیئے گئے ہیں ۔ ایک رِوایت کے مطابِق حضرت ِسیِّدُنا آدم صَفِیُّ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَاماِسی جَبَلِ ابوقُبَیسپرواقِع  ’’  غار الکنز ‘‘ میں مَدفُون ہیں جبکہ ایک مُستند روایت کے مطابِق مسجدِخَیف میں دَفْن ہیں جو کہ مِنٰی  شریف میں ہے۔ وَاللّٰہُ تعالٰی اَعْلمُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّ وَجَلَّ وصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ۔

 خدیجۃُ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کامکان رحمت نشان:  مَکّے مدینے کے سُلطان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب تک مَکَّہ مکرّمہزَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں رہے اِسی مکانِ عالی شان میں سُکُونَت پذیر رہے۔ سیِّدُنا ابراھیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے علاوہ تما م اولاد بَشمول شہزادیٔ کونَین بی بی فاطِمہ زَہرا  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی یہیں وِلادت ہوئی۔ سیِّدُنا جبرئیلِ امین عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے بارہا اِس مکانِ عالیشان کے اندر بارگاہِ رسالت میں حاضِری دی ، حُضُورِ اَکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پرکثرت سے نُزولِ وَحی اِسی میں ہوا۔ مسجدِ حرام کے بعد مَکَّۂ مکرّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً میں اِس سے بڑھ کر افضل کوئی مقام نہیں ۔ مگر صدکروڑبلکہ اربوں کھربوں افسوس! کہ اب اِس کے نشان تک مٹا

Index