مَدَنی پھول: صَدرُالشَّریعہ ، بَدرُالطَّریقہحضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی میدانِ عَرَفات میں پڑھنے کی بعض دعائیں نَقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : اس مقام پر پڑھنے کی بَہُت دعائیں کتابوں میں مذکور ہیں مگر اتنی ہی میں کِفایت ہے اور دُرُود شریف وتِلاوتِ قرآن مجید سب دُعاؤ ں سے زیادہ مُفید۔ (بہارِ شریعت ج ۱ص ۱۱۲۷)
میدانِ عرفات میں دُعا کھڑے کھڑے مانگنا سُنَّت ہے: پیارے پیارے حاجیو! صِدقِ دِل سے اپنے ربِّ کریم عَزَّوَجَلَّ کی طرف مُتَوَجِّہ ہو جایئے اورمیدانِ قِیامت میں حِسابِ اَعمال کے لیے اُس کی بارگاہ میں حاضِری کا تَصوُّر کیجئے۔ نہایت ہی خُشُوع و خُضُوع کے ساتھ لرزتے ، کانپتے ، خوف واُمّید کے ملے جُلے جذبات کے ساتھ آنکھیں بندکئے ، سرجُھکائے دُعا کے لئے ہاتھ آسمان کی طرف سَر سے اُونچے پھیلائے توبہ و اِستِغفار میں ڈوب جائیے ، دَورانِ دُعا وَقتًا فوقتًا لَبَّیْککی تکرار رکھئے ، خوب رورو کر اپنی ، اپنے والدَین اورتمام اُمَّت کی مغفِرت کی دُعا مانگئے ، کوشِش کیجئے کہ ایک آدھ قطرۂ آنسو تو ٹپک ہی جائے کہ یہ قَبولیَّت کی دلیل ہے ، اگر رونا نہ آئے تو رونے جیسی صُورت ہی بنالیجئے کہ اچّھوں کی نَقل بھی اچّھی ہے۔ تاجدارِ مدینہ ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اورتمام انبیام ئے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام اور تمام صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اوراہلِ بیتِ اطہارکا وسیلہ اپنے پَروَرْدَگار عَزَّوَجَلَّ کے دَربار میں پیش کیجئے۔ حُضُورِ غوثِ پاک ، خواجہ غریبِ نواز اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی کا واسِطہ دیجئے ، ہر وَلی اورہر عاشِقِ نبی کا صَدقہ مانگئے۔ آج رَحمت کے دَروازے کھولے گئے ہیں ، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ مانگنے والا ناکام نہیں ہو گا ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رَحمت کی گھنگھور گھٹائیں جُھوم جُھوم کر آرہی ہیں ، رَحمتوں کی مُوسلادھار بارِش برس رہی ہے۔ سارے کاسارا عَرَفات اَنوار وتَجَلِّیات اور رَحمت وبَرَکات میں ڈُوبا ہُوا ہے! کبھی اپنے گناہوں اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قہّاری اور اس کے عذاب سے پناہ مانگتے ہوئے بَید کی طرح لرزئیے تو کبھی ایسے جذبات ہوں کہ اُس کی رَحمتِ بے پایاں کی اُمّید سے مُرجھایا ہُوا دِل گلِ نَوشِگُفتہ کی طرح کِھل اُٹھے۔
عَدْل کرے تاں تھر تھر کمبن اُچِّیاں شاناں والے
فَضْل کرے تاں بخشے جاوَن میں جَہے مُنہ کالے
(دَورانِ دُعا وَقتًا فَوَقتًا لَبَّیْک و دُرُود شریف پڑھئے)
دونوں ہاتھ اِس طرح اٹھایئے کہ سینے ، کندھے یا چِہرے کی سیدھ میں رہیں یا اتنے بُلند ہو جائیں کہ بغل کی رنگت نظر آ جائے ، چاروں صورَتوں میں ہتھیلیاں آسمان کی طرف پھیلی ہوئی رہیں کہ دُعا کا قِبلہ آسمان ہے۔ اب یوں دُعا شروع کیجئے :
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط یَاۤ اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ یَاۤ اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ یَاۤ اَرْحَمَ الرّٰحِمِیْنَ [1]؎ یَارَبَّنَا یَارَبَّنَا یَارَبَّنَا یَارَبَّنَا یَارَبَّنَا [2]؎
جس قَدَر دُعائے ماثُورہ (یعنی قران و حدیث کی دعائیں ) یاد ہوں ، وہ عَرَبی میں عرض کرنے کے بعد اپنے دِلی جذبات اپنی مادَری زَبان میں اپنے رَحمت والے پَروَرْدَگار عَزَّوَجَلَّ کے دربارِ گُہَربار میں اِس یقینِ مُحکَم کے ساتھ کہ آپ کی دُعا قَبول ہو رہی ہے اِس طرح عرض کیجئے: یَااَللہُ یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ ط
تیرے کروڑہا کروڑ اِحْسان کہ تُو نے مجھے اِنسان بنایا ، مسلمان کیا اورمیرے ہاتھوں میں دامَنِ رَحْمتِ عالمیان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ عطا فرمایا۔ یَااَللہُ عَزَّوَجَلَّ! اے محمدِعَرَبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خالِق عَزَّوَجَلَّ! میں کس زَبان سے تیرا شکرادا کروں کہ تُو نے مجھے حج کا شَرَف بخشا۔میری کس قَدَر خوش بختی ہے کہ میں اُس میدانِ عَرَفات کے اندر حاضِرہوں جسے یقینا میٹھے میٹھے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قدم بوسی کاشَرَف مِلا ہے ، دُنیا کے کونے کونے سے آنے والے لاکھوں مسلمان آج یہاں جمع ہوئے ہیں ، اِن میں یقینا تیرے دو نبی حضرتِ الیاس وحضرتِ خِضَر عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اوربے شمار اَولیائے کرام بھی موجود ہیں ۔ چُنانچِہ اے ربِّ رسولِ کریم عَزَّوَجَلَّ! آج جو رَحْمت کی بارِشیں نبیّوں اور وَلیوں پر برس رہی ہیں انھیں کے صدقے ایک آدھ قطرہ مجھ گنہگار پر بھی برسا دے۔ ؎
یَااللّٰہُ یَا رَحمٰنُ یَاحنّانُ یَا مَنّانُ
بخش دے بخشے ہوؤں کا صدقہ
یَااللّٰہ مِری جھولی بھر دے (وسائلِ بخشش ص ۱۰۷)
(اوّل آخِر دُرودِ پاک اور تین بارلَبَّیْک پڑھئے)
یاربِّ مصطَفٰے عَزَّوَجَلَّ! میری کمزوری اور ناتُوانی تجھ پر آشکار ہے ، آہ!میں تو وہ کمزور بندہ ہوں کہ نہ گرمی برداشت کر سکتاہوں نہ سردی ، مجھ میں کھٹمل ، مچھّر کے ڈنک کی بھی سہار نہیں حتّٰی کہ اگر چِیُونٹی بھی کاٹ لے تو بے چَین ہوجاتاہوں ، آہ ! اگر کوئی پَروں والا معمولی ساکیڑا کپڑوں میں گھُس کرپَر پھڑپھڑاتا ہے تو مجھے اُچھال کر رکھ دیتاہے ، آہ! ہائے میری بربادی!اگر گناہوں کے سبب مجھے قَبر میں تیرے قَہر وغَضَب کی آگ نے گھیر لیا تو میں کیا کروں گا! آہ!اگر میرے کَفَن میں سانپ اور بِچھُّوگھُس گئے تو میرا کیا بنے گا! اے ربِّ محمد عَزَّوَجَلَّ! بَطُفیلِ محمد
[1] ۔۔۔ مدنی آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : اسم پاک ’’ارحمُ الراحمین‘‘ پر ایک فرِشتہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مقرّر فرمایا ہے جوشخص اسے (یعنی ارحمُ الرّاحمین ) تین بار کہتا ہے فرِشتہ ندا کرتاہے :’’مانگ کہ ارحمُ الراحمین تیری طرف مُتَوَجِّہ ہوا۔‘‘ (احسن الوعا ص۷۰)
[2] ۔۔۔ سیِّدُنا امام جعفرِصادِق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : جو شخص عِجز (یعنی لاچاری) کے وَقت پانچ بار ’’ یَارَبَّنَا‘‘ کہے ، اللہ عَزَّوَجَلَّ اُسے اُس چیز سے امان بخشے جس سے خوف رکھتا ہے اور وہ جو دعا مانگتا ہے وہ عطا کرتا ہے۔(احسنُ الوعاص۷۱)