رفیق الحرمین

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

سُوال : کیا بچّے بھی حج کر سکتے ہیں ؟

جواب:  جی ہاں ۔چُنانچِہ حضرت سیِدُناعبد اللّٰہ بن عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ سرکار دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمقامِ رَوْحامیں ایک قافلے سے ملے تو فرمایاکہ یہ کون لوگ ہیں ؟  اُنہوں نے عَرْض کیا کہ ہم مسلمان ہیں  ،  پھر اُنہوں نے عَرْض کیا : آپ کون ہیں ؟  فرمایا:  اللہ عَزَّ وَجَلَّ  کا رسول ہوں ۔ ان میں سے ایک خاتون نے بچّے کو اُوپر اُٹھا کر پوچھا : کیا اس کا بھی حج ہو جائے گا؟  فرمایا:  ہاں اور تجھے بھی اس کا ثواب ملے گا۔  (مسلم  ، ص ۶۹۷  ، حدیث:  ۱۳۳۶) 

                        مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّانفرماتے ہیں :  یعنی بچّے کو بھی حج کا ثواب ملے گا حج کرنے کا اورتجھے بھی اس کے حج کاثواب ملے گا حج کرانے کا۔ مزید فرماتے ہیں :  اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچّوں کی نیکیوں کا ثواب   (بچّے کو تو ملتا ہے اُس کے)  ماں باپ کو بھی ملتا ہے لہٰذا انہیں نَماز روزے کا پابند بناؤ۔    (مراۃ ،  ج۴ ، ص۸۸

سُوال :  تو کیا حج کرنے سے بچّے کافرض ادا ہو جائے گا؟

جواب:   جی نہیں ۔حج فرض ہونے کے شرائط میں سے ایک شرط  ’’ بالِغ ہونا ‘‘  بھی ہے چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں :  بچّے پر  (حج)   فرض نہیں  ،   (اگر)  کرے گا تو نَفْل ہوگا اور ثواب اُسی   (یعنی بچّے ہی)   کے لئے ہے ،  باپ وغیرہ مُرَبّی تعلیم و تربیَّت کا اَجر پائیں گے ۔پھر   (جب)  بعدِ بُلوغ شرطیں جَمْعْ ہوں گی اِس پر حج فرض ہوجائے گا ،  بچپن کا حج کِفایت نہ کریگا ۔   (فتاویٰ رضویہ مخرجہ ،  ج۱۰ ،  ص۷۷۵  

سُوال : مناسِک حج کی ادائیگی کے اعتبار سے بچّوں کی کتنی اَقسام ہیں ؟  

جواب:  اِس اعتبار سے بچّوں کی دوقِسمیں ہیں :  {۱ سمجھ دار:  جو پاک اور ناپاک  ،  میٹھے اور کڑوے میں تمیز کر سکتا ہو مَعرِفت  (یعنی پہچان)   رکھتا ہو کہ اسلام نَجات کا سبب ہے  ( ارشاد الساری حاشیہ مناسک  ، ص۳۷ {۲}   نا سمجھ:  جو مذکورہ   (یعنی بیان کردہ)  سمجھ نہ رکھتا ہو۔                

سُوال :  کیاسمجھ دار بچّے کوخود مناسِکِ حج ادا کرنے ہوں گے؟  

جواب:  جی ہاں ۔سمجھ وال  (یعنی سمجھدار)  بچّہ خود اَفعالِ حج کرے  ، رَمی وغیرہ بعض باتیں   (اُس بچّے نے)   چھوڑ   (بھی)  دِیں تو اُن   (کے چھوڑنے)  پر کفّارہ وغیرہ لازِم نہیں ۔  (بہارشریعت ،  ج۱  ، ص۱۰۷۵ 

سُوال :  اگر سمجھدار بچّہ بعض افعالِ حج خود بجالا سکتا ہو اور بعض نہ کر سکتا ہو تو کیا کرے ؟  کیا کسی کو نائب کر سکتا ہے؟

جواب:  حضرتِ علّامہ علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِیفرماتے ہیں :  جو اَفعال سمجھ دار بچّہ  خود کرسکتا ہو اس میں کسی کو نائب بنانا دُرُست نہیں ہے اور جو خود نہیں کرسکتا اُن میں نائب بنانا دُرُست ہے مگر طواف کے بعد کی دورَکعتیں اگربچّہ خود نہ پڑھ سکے تو کوئی دوسرا اس کی طرف سے ادا نہیں کرسکتا۔  (اَلْمَسْلَکُ الْمُتَقَسِّط لِلقاری  ، ص۱۱۳

نا سمجھ بچّے کے حج کا طریقہ

سُوال :  ناسمجھ بچّہ مناسِک حج کیسے ادا کرے گا؟  

جواب:  جن اَفعال میں نیّت شَرْط ہے وہ ولی   (یعنی سر پر ست )  اس کی طرف سے بجا لائے گا اور جن میں نیّت شَرْط نہیں وہ خود کرسکتا ہے چُنانچِہ فُقَہائے کرام  رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں :   ’’  ناسمجھ بچّے نے خود اِحرام باندھا یا اَفعالِ حج ادا کیے تو حج نہ ہوا بلکہ اُس کا ولی   (یعنی سرپرست)  اُس کی طرف سے بجا لائے مگر طواف کے بعد کی دورَکعتیں کہ بچّے کی طرف سے ولی   (یعنی سر پر ست )  نہ پڑھے گا۔ اس کے ساتھ باپ اوربھائی دونوں ہوں تو باپ اَرکان ادا کرے ۔ ‘‘   (عالمگیری ،  ج ا ، ص۲۳۶ ، بہارِشریعت ،  ج ا ، ص۱۰۷۵

            صَدرُالشَّریعہ ، بَدرُالطَّریقہحضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں :  یہ   (نا سمجھ بچّہ یا مَجنون یعنی پاگل)   خودوہ اَفعال نہیں کرسکتے جن میں نیّت کی ضَرورت ہے ،  مَثَلاًاِحرام یا طواف ،  بلکہ ان کی طرف سے کوئی اور کرے اور جس فِعل میں نیّت شَرط نہیں  ،  جیسے وُقوفِ عَرَفہ وہ یہ خود کرسکتے ہیں ۔  (بہارشریعت ،  ج۱  ، ص۱۰۴۶)   

سُوال :  کیا اِحرام سے پہلے بچّوں کو بھی غسل کروایا جائے؟  

جواب:  جی ہاں ۔ ’’  فتاوٰی شامی ‘‘  جلد 3صَفْحَہ 557پر لکھے ہوئے جُزیئے کا خلاصہ ہے کہ سمجھدار اور ناسمجھ دونوں بچّے ہی غسل کریں گے۔ البتّہ یہ فرق ہے کہ عاقِل کے لئے تو خود غسل کرنا مُستَحَب ہے اور ولی کے لئے غسل کا حُکْم دینا مُستَحَب ہے جبکہ ناسمجھ بچّے کو ولی کا خود غسل کروانا یا بچّے کی والدہ وغیرہ کے ذَرِیعے کروانامُستَحَب ہو گا۔

سُوال : کیا نا سمجھ بچّے کو اِحرام بھی پہنانا ہو گا؟  

جواب:  جی ہاں ۔یوں کرنا چاہیے کہ ناسمجھ بچّے کے سِلے ہوئے کپڑے اُتار کر چادر اور تہبند وَلی غیرِ ولی  (یعنی سرپرست یا غیر سرپرست)   کوئی بھی پہنا دے مگر اُس طرف سے باپ  ،  باپ نہ ہو تو بھائی اور بھائی نہ ہو توجو بھی نَسَب   (یعنی خونی رشتے )   کے اعتِبار سے قریبی رشتے دار ہو وُہ اُس کی طرف سے اِحرام کی نیّت کرے اور ان باتوں سے بچائے جومُحرِم کے لئے ناجائز ہیں ۔ چُنانچِہ صَدرُالشَّریعہ ، بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں :  بچّے کی طرف سے اِحرام باندھا تو اُس کے سلے ہوئے کپڑے اُتار لینے چاہئیں  ،  چادر اور تہبند پہنائیں اور اُن تمام باتوں سے بچائیں جو مُحرِم کے لیے ناجائز ہیں ۔  (بہارشریعت  ، ج۱  ، حصہ۶  ، ص۱۰۷۵سمجھ دار بچّہ احرام کی نیّت خود کرے گا ، ولی   (یعنی سر پرست)  اس کی طرف سے اِحرام نہیں باندھ سکتا۔جیسا کہ  ’’  شامی  ‘‘ میں ہے :   ’’  اگر بچہ سمجھ دار ہو تو اسے خود اِحرام باندھنا ہوگا  ،  ولی   (یعنی سرپرست)   اس کی طرف سے نہ

Index