جواب: اتنی اونچی آواز سے پڑھنا جس سے دیگر طواف کرنے والوں یا نمازیوں کو تشویش یعنی پریشانی ہو مکروہِ تحریمی ، ناجائز و گناہ ہے۔ البتّہ کسی کو اِیذا نہ ہو اس طرح گنگُنانے یعنی دھیمی آواز سے پڑھنے میں حَرَج نہیں ۔ یہاں وہ صاحِبان غور فرمائیں جن کے موبائل فونز سے دورانِ طواف ٹُونز بجتی رہتیں اور عبادت گزاروں کو پریشان کرتی رہتی ہیں ان سب کو چاہئے کہ توبہ کریں ۔ یاد رکھئے! یہ احْکام صِرْف ’’ مسجدُ الحرام ‘‘ کے لئے ہی نہیں تمام مساجد بلکہ تمام مقامات کیلئے ہیں اور میوزیکل ٹُون مسجد کے علاو ہ بھی ناجائز ہے۔
اِضطِباع اور رَمَل کے بارے میں سُوال وجواب
سُوال: اگرسَعْی سے قَبل کئے جانے والے طَواف کے پہلے پَھیرے میں رَمَل کرنا بُھول گئے تو کیا کرنا چاہیے؟
جواب: رَمَل صِرْف ابتِدائی تین پَھیروں میں سنَّت ہے ، ساتوں میں کرنا مکروہ ، لہٰذا اگر پہلے میں نہ کیا تو دوسرے اور تیسرے میں کرلیجئے اوراگرابتِدائی دوپھیروں میں رَہ گیا تو صِرْف تیسرے میں کرلیجئے اور اگر شُروع کے تینوں پَھیروں میں نہ کیا تو اب بَقِیَّہ چار پَھیروں میں نہیں کرسکتے۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتار ، ج۳ ، ص۵۸۳)
سُوال: جس طَواف میں اِضْطِباع اور رَمَل کرنا تھا اُس میں نہ کیا توکیا کَفّارہ ہے ؟
جواب: کوئی کَفّارہ نہیں ۔ البتَّہ عظیم سُنَّت سے مَحرومی ضَرور ہے۔
سُوال: اگر کوئی ساتوں پَھیروں میں رَمَل کرلے تو؟
جواب: مکروہِ تنزیہی ہے۔ (رَدُّالْمُحتار ، ج۳ ، ص۵۸۴) مگر کوئی جُرمانہ وغیرہ نہیں ۔
سُوال: حاجی نے سَعْی مُطْلَقاً نہ کی اور وطن چلاگیا ، اب کیا کرے ؟
جواب: حج کی سَعْی واجِب ہے ، تو جس نے بالکل سَعْی نہ کی یا چار یا چار سے زِیادہ پھیرے تَرْک کردیئے تو دَم واجِب ہے ، چار سے کم پَھیرے اگر تَرْک کئے تو ہر پَھیرے کے بدلے میں صَدَقہ دے۔ (بہارِ شریعت ، ج ۱ ، ص۱۱۷۷)
سُوال: جس کی حج کی سَعْی رَہ گئی ، وطن چلا گیا اوردَم بھی نہ دیا ، پھر اللہ عَزَّ وَجَلَّنے اُسے موقع دیا اور دوسال بعد حج کی سعادت مل گئی ، باقی رَہ جانے والی سَعْی کر سکتا ہے یا نہیں ؟
جواب: کرسکتا ہے اور دم بھی ساقِط ہو گیا ۔مگریہ سوچ کرسَعْی چھوڑ کر وطن نہ چلا جائے کہ پھر آکر کرلوں گا کہ زندگی کا بھروسا نہیں اور زندہ بچ بھی گئے تو حاضِری یقینی نہیں ۔
سُوال: حج کی سَعْی کے چار پَھیرے کر لئے اور اِحرام کھول دیا یعنی حَلْق وغیرہ کروا لیا اب کیا کرے ؟
جواب: تین صَدَقے دے ، اگر بعد حَلْق وغیرہ کے بھی بقیّہ سَعْی ادا کرلے تو کَفّارہ ساقِط ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ سَعْی کے لئے زمانہ ٔحج یا اِحرام شَرْط نہیں اگر ادا نہ کی ہو تو عمر بھر میں جب بھی سَعْی بجالا ئے واجِب ادا ہوجائے گا ۔ (اب کفّارے کی حاجت نہیں رہے گی)
سُوال: اگرطَواف سے پہلے ہی سَعْی کرلی تو کیا کرنا چاہئے؟
جواب: صَدرُالشَّریعہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : سَعْی کے لیے شَرْط یہ ہے کہ پورے طواف یا طواف کے اکثر حصّہ کے بعد ہو ، لہٰذا اگر طواف سے پہلے یا طواف کے تین پَھیرے کے بعد سَعْی کی تو نہ ہوئی اورسَعْی کے قَبل احرام ہونا بھی شَرْط ہے ، خواہ حج کا اِحرام ہو یا عمرہ کا ، اِحرام سے قَبل سَعْی نہیں ہو سکتی اور حج کی سَعْی اگر وُقُوفِ عَرَفہ کے قَبل کرے تو وَقتِ سَعْی میں بھی اِحرام ہونا شَرْط ہے اور وُقُوف عَرَفہ کے بعد ہو تو سنّت یہ ہے کہ اِحرام کھول چکا ہو اور عمرہ کی سَعْی میں اِحرام واجِب ہے یعنی اگر طواف کے بعد سر مونڈا لیا پھرسَعْی کی توسَعْی ہوگئی مگر چُونکہ واجِب تَرْک ہوا لہٰذا دَم واجِب ہے۔ (بہارِ شریعت ج ۱ ص ۱۱۰۹ )
بَوس وکَنار کے بارے میں سُوال وجواب
سُوال: اِحرام کی حالت میں بیوی کو ہاتھ لگانا کیسا؟
جواب: بیوی کو بِلا شَہْوَت ہاتھ لگاناجائز ہے مگر شَہْوَت کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالنا یا بدن کوچُھونا حرام ہے۔اگر شَہْوَت کی حالت میں بَوس وکَنار کیا یاجِسم کوچُھوا تو دَم واجِب ہوجائے گا۔یہ اَفعال عورت کے ساتھ ہوں یا اَمْرَد کے ساتھ دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ (دُرِّمُختارو رَدُّالْمُحتار ، ج ۳ ، ص ۶۶۷) اگر مُحرِمہ کوبھی مرد کے اِن اَفعال سے لذَّت آئے تو اُسے بھی دَم دیناپڑے گا۔ (بہارِ شریعت ، ج۱ ، ص ۱۱۷۳ )
سُوال: اگر تصَوُّر جم جائے یاشَرْمگاہ پر نظر پڑجائے اور اِنزال ہو (یعنی منی نکل ) جائے تو کیا کَفّارہ ہے؟
جواب: اِس صورت میں کوئی کَفّارہ نہیں ۔ (عالمگیری ، ج۱ ، ص۲۴۴) رہاحرام کردہ عورَت یا اَمْرَدسے بد نِگاہی کرنایاقصداً اُن کا ’’ گندا ‘‘ تصَوُّر باندھنا یہ اِحْرام کے علاوہ بھی حرام اورجہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔نیز اس طرح کے گندے وَسوَسے بھی آئیں تومَعَاذَاللہ لطف اندو ز ہونے کے بجائے فوراً توجُّہ ہٹائے۔ اِسی طرح عورَتوں کیلئے بھی یِہی اَحکام ہیں ۔
سُوال: اگر اِحتِلام ہوجائے تو؟
جواب: کوئی کَفّارہ نہیں ۔ (عالمگیری ، ج۱ ، ص۲۴۴)