رفیق الحرمین

                                                کعبے کا بھی ہے کعبہ میٹھے نبی کا روضہ          (وسائلِ بخشش ص ۲۹۸

پچاس ہزار اِعتکاف کا ثواب:  جب جب آپمسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  میں داخِل ہوں تو اِعتِکاف کی نیّت کرنا نہ بھولئے ،  اِس طرح ہر بار آپ کو  ’’ پچاس ہزار نفلی اِعتِکاف ‘‘  کا ثواب ملے گا اور ضِمناً کھانا ،  پینا ،  اِفطار کرنا وغیرہ بھی جائز ہو جائے گا۔ اِعتِکاف کی نیَّت اِس طرح کیجئے:

  نَوَیْتُ سُنَّتَ الْاِعْتِکاف    [1]؎؎  ترجَمہ: میں نے سُنَّتِ اِعتِکاف کی نیَّت کی۔

روزانہ پانچ حج کا ثواب:  خُصُوصاً چالیس نَمازیں بلکہ تمام فرض نَمازیں مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  ہی میں ادا کیجئے کہ  تاجدارِ مدینہ ،  راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے:  ’’  جو شخص وُضو کر کے میری مسجِدمیں نَماز پڑھنے کے اِرادے سے نکلے یہ اُس کے لئے ایک حج کے برابر ہے۔ ‘‘   (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ ص۴۹۹ حدیث۴۱۹۱

سلام زَبانی ہی عَرض کیجئے:  وہاں جو بھی سلام عرض کرنا ہے ،  وہ زَبانی یاد کر لینا مناسِب ہے ،  کتاب سے دیکھ کر سلام اور دُعا کے صیغے وہاں پڑھنا عجیب سا لگتا ہے کیونکہ سرورِ کائنات  ، شَہَنْشاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جسمانی حیات کے ساتھ حُجرۂ مُبارَکہ میں قبلے کی طرف رُخ کئے تشریف فرما ہیں اور ہمارے دِلوں تک کے خَطرات  (یعنی خیالات)   سے آگاہ ہیں ۔ اِس تَصَوُّرکے قائم ہوجانے کے بعد کتاب سے دیکھ کر سلام وغیرہ عرض کرنا بَظاہِر بھی نامُناسب معلوم ہوتاہے۔ مَثَلاً آپ کے پیر صاحِب آپ کے سامنے موجود ہوں تو آپ اُن کوکتاب سے پڑھ پڑھ کر سلام عرض کریں گے یا زَبانی ہی  ’’  یاحضرت السلام علیکم  ‘‘  کہیں گے؟  اُمّید ہے آپ میرا مُدَّعا سمجھ گئے ہوں گے۔ یاد رکھئے!بارگاہِ رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں بنے سجے اَلفاظ نہیں بلکہ دِل دیکھے جاتے ہیں ۔

بُڑھیا کو دیدار ہوگیا:  مدینۂ منوَّرہ! زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً    ۱۴۰۵؁ ھ کی حاضِری میں سگِ مدینہ عفی عنہ کو ایک پیر بھائی مرحوم حاجی اسمٰعیل نے یہ واقِعہ سُنایا تھا: دو یا تین سال پہلے تقریباً85 سالہ ایکحَجَّن بی سنہری جالیوں کے رُو بروسلام عرض کرنے  حاضِر ہوئیں اور اپنے ٹوٹے پھوٹے اَلفاظ میں صلوٰۃ وسلام عرض کرنا شُروع کیا ،  ناگاہ ایک خاتون پر نظر پڑی جوکتاب سے دیکھ دیکھ کر نہایت عُمدہ اَلقاب کے ساتھ صلوٰۃ وسلام عَرض کر رہی تھی ،  یہ دیکھ کر بے چاری اَن پڑھ بُڑھیا کا دِل ڈوبنے لگا ،  عرض کی:  یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ !میں تو پڑھی لکھی ہوں نہیں جو اچّھے اچّھے الفاظ کے ساتھ سلام عرض کرسکوں  ،  مجھ اَن پڑھ کا سلام آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کہاں پسند آئے گا! دِل بھر آیا ،  رو دھوکر چُپ ہورہی۔ رات جب سوئی تو سوئی ہوئی قسمت اَنگڑائی لے کر جاگ اُٹھی! کیا دیکھتی ہے کہ سرہانے اُمَّت کے والی ،  سرکارِ عالی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے ہیں  ،  لب ہائے مُبارَکہ کوجُنبِش ہوئی ، رحمت کے پھول جھڑنے لگے ،  اَلفاظ کچھ یوں ترتیب پائے :   ’’  مایوس کیوں ہوتی ہو؟  ہم نے تمہارا سلام سب سے پہلے قَبول فرمایا ہے ۔  ‘‘

تم اُس کے مددگار ہو تم اُس کے طرفدار              جو  تم کو   نکمّے  سے  نکمّا  نظر  آئے

لگاتے ہیں اُس کو بھی سینے سے آقا                                 جو  ہوتا  نہیں  مُنہ لگانے  کے  قابِل

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اَلْاِنْتِظَار…!… اَلْاِنتِظَار…!:  سبز سبزگنبد اور حُجرۂ مَقصُورَہ   (یعنی وہ مبارک کمرہ جس میں حُضور انور سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قبرِ منوَّر ہے )   پر نظر جمانا عبادت اور کارِ ثواب ہے۔ زِیادہ سے زِیادہ وَقتمسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام   میں گزارنے کی کوشش کیجئے۔ مسجد شریف میں بیٹھے ہوئے دُرُود وسلام پڑھتے ہوئے حُجرۂ مُطَہَّرہ پر جتنا ہوسکے نگاہِ عقیدت جمایا کیجئے اور اِس حسین تَصَوُّر میں ڈوب جایا کیجئے گویا عنقریب ہمارے میٹھے میٹھے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حُجرۂ مُنوَّرہ سے باہَر تشریف لانے والے ہیں ۔ ہجروفراق اور اِنتظا رِآقا ئے نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  میں اپنے آنسو ؤ ں کو بہنے دیجئے۔    ؎

کیا خبر آج ہی دِیدار کا اَرماں نکلے           اپنی آنکھوں کو عقیدت سے بچھائے رکھئے

ایک مَیمن حاجی کودِیدار ہوگیا:  سگِ مدینہ عفی عنہ کو۱۴۰۰؁ ھ کی حاضِری میں مدینۂ پاک زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً   میں بابُ المدینہ کراچی کے ایک نوجوان حاجی نے بتایاکہ میں مسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  میں رَحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے حُجرۂ مَقصُورہ کے پیچھے پُشتِ اَطہر کی جانِب سبز جالیوں کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا کہ عَین بیداری کے عالم میں  ، میں نے دیکھا کہ اَچانک سبز سبزجالیوں کی رُکاوٹ ہٹ گئی اور تا جدارِ مدینہ ،  قرارِقلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  حُجرۂ پاک سے باہَر تشریف لے آئے اور مجھ سے فرمانے لگے:  ’’  مانگ کیا مانگتا ہے؟  ‘‘ میں نور کی تجلّیوں میں اِس قَدَر گُم ہوگیا کہ کچھ عرض کرنے کی جَسارَت  (یعنی  ہمّت)   ہی نہ رہی ،  آہ!میرے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  جلوہ دِکھا کر مجھے تڑپتا چھوڑ کر اپنے حُجرۂ مُطَہَّرہ میں واپَس تشریف لے گئے۔    ؎

شربتِ دِید نے اِک آگ لگائی دِل میں                تَپِش دِل کو بڑھایا ہے بجھانے نہ دِیا

اب کہاں جائے گا نقشہ ترا میرے دل سے                       تہ میں رکھا ہے اِسے دل نے گمانے نہ دیا

گلیوں میں نہ تھوکئے!:  مَکّے مدینے کی گلیوں میں تھوکانہ کیجئے ، نہ ہی ناک صاف کیجئے۔جانتے نہیں اِن گلیوں سے ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ گزرے ہیں ۔

 



[1] ۔۔۔ بابُ السلام اور بابُ الرحمۃ سے مسجد نبوی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں داخل ہوں تو سامنے والے سُتون مبارک پر غور سے دیکھیں گے تو سُنہری حرفوں سے’’نَوَیْتُ سُنَّتَ الْاِعْتِکَاف ‘‘ اُبھرا ہوا نظر آ ئے گا جو کہ عاشقانِ رسول کی یاد دہانی کے لئے ہے۔

Index