نیَّت سے حج کرے اور افضل یہ ہے کہ زَبان سے بھی لَبَّیْک عَنْ فُلان[1] کہہ لے اوراگر اُس کا نام بھول گیا ہے تو یہ نیَّت کرلے کہ جس نے بھیجا ہے (یا جس کے لیے بھیجا ہے) اُس کی طرف سے کرتاہوں ۔ (رَدُّالْمُحتار ج۴ص۲۰) {۱۷} اگر اِحرام باندھتے وَقت نیَّت کرنا بھول گیا تو جب تک اَفعالِ حج شُروع نہ کئے ہوں اِختِیار ہے کہ نیَّت کرلے۔ (ایضًاص۱۸)
’’ آؤ حج کریں ‘‘ کے نو حروف کی نسبت سے حَجِّ بَدَل کے 9 متفرق مَدَنی پھول
{۱} ’’ وصی ‘‘ (یعنی وصیّت کرنے والے) نے اِس سال کسی کو حجِّ بَدَل کے لیے مقرّر کیا مگر وہ اِس سال نہ گیا سالِ آیَندہ جاکر ادا کیا ، ادا ہوگیا ، اُس پر کوئی جُرمانہ نہیں ۔ (عالمگیری ج۱ص۲۶۰) {۲} حجِّ بَدَل کرنے والے کے لیے ضَروری ہےکہ جو کچھ بچاہے وہ واپَس کردے۔ اگر چِہ بَہُت تھوڑی سی چیز ہو اُسے رکھ لینا جائز نہیں ۔ اگرچِہ شَرْط کرلی ہوکہ جو کچھ بچا وہ واپَس نہیں دوں گا کہ یہ شَرط باطِل ہے۔ ہاں دو صورَتوں میں رکھنا جائز ہوگا: (۱) بھیجنے والا اُس کو وکیل کردے کہ جو کچھ بچ جائے وہ اپنے آپ کو ہِبہ کر کے (یعنی بطورِ تحفہ دیکر ) قبضہ کرلینا (۲) یہ کہ بھیجنے والا قریبُ الموت ہو اور اِس طرح وَصِیَّت کردے کہ جو کچھ بچے اُس کی میں نے تجھے وَصِیَّت کی۔ (مُلَخَّص ازبہارِ شریعت ج ا ص۱۲۱۰ ، دُرِّمُختار ، رَدُّالْمُحتار ج۴ص۳۸) {۳} بہتر یہ ہے کہ جسے حجِّ بَدَل کے لیے بھیجا جائے پہلے وہ خود اپنے فرض حج سے سَبُک دَوش (یعنی بریُ الذّمّہ) ہوچکا ہو ، اگر ایسے کو بھیجا جس نے خود حج نہیں کیا جب بھی حجِّ بَدَل ہوجائے گا۔ (عالمگیری ج۱ ص۲۵۷) ایسا شخص جس نے فرض ہونے کے باوُجُود حج نہ کیا ہو اُسے حجِّ بَدَل پر بھجوانا مکروہِ تحریمی ہے۔ (اَلْمَسْلَکُ الْمُتَقَسِّط لِلقاری ص۴۵۳) {۴} بہتریہ ہے کہ ایسے شخص کو بھیجیں جو حج کے اَفعال اور طریقے سے آگاہ ہو ، اگر مُراہِق یعنی قریبُ البُلُوغ بچّے سے حجِّ بَدَل کروایا جب بھی ادا ہوجائے گا۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص۱۲۰۴ ، دُرِّمُختار ج۴ص۲۵) {۵} بھیجنے والے کے پیسوں سے نہ کسی کوکھانا کِھلا سکتاہے نہ فقیر کو دے سکتاہے ، ہاں بھیجنے والے نے اِجازت دی ہوتومُضایَقہ نہیں ۔ (بہارِ شریعت ج۱ ص۱۲۱۰ ، لُبابُ الْمَناسِک ص ۴۵۷) {۶} ہر قِسم کے جُرمِ اِختِیاری کے دَم خود حجِّ بَدَل ادا کرنے والے پر ہیں بھیجنے والے پر نہیں {۷} اگر کسی نے نہ خود حج کیا ہو نہ وارِث کووَصِیَّت کی ہو اوراِنتِقال کرگیا اور وارِث نے اپنی مرضی سے اپنی طرف سے حجِّ بَدَل کروادیا (یا خود کیا) تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ اُمید ہے کہ اُس کی طرف سے ادا ہوجائے گا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۲۵۸) {۸} حجِّ بَدَلکرنے والا اگر مَکَّۂ مُکَرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً ہی میں رہ گیا تو یہ بھی جائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ واپَس آئے ، آنے جانے کے اَخراجات بھیجنے والے کے ذِمیّ ہیں ۔ (اَیضاً ) {۹} حجِّ بَدَلکرنے والا بھیجنے والے کی رقم سے مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کا ایک بار سفر کر سکتا ہے ، مکے مدینے کی زیارتوں پر خرچ نہیں کر سکتا ، درمیانہ درجے کا کھانا کھائے گا ، جس میں گوشت بھی داخل ہے ، البتّہ سیخ کباب ، چَرغہ وغیرہ عمدہ کھانے ، مٹھائیاں ، ٹھنڈی بوتلیں پھل فروٹ وغیرہ نہیں کھا سکتے ، نیز کھجور یں ، تسبیحات وغیرہ تبرکات لانے کی بھی اجازت نہیں ۔ (حجِّ بَدَل کی مزید تفصیلات کیلئے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ بہارِ شریعت جلداوّلصَفْحَہ1199تا1211کا مُطالَعہ ضَروری ہے)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
مدینے کی حاضِری
حسنؔ حج کرلیا کعبے سے آنکھوں نے ضِیا پائی
چلو دیکھیں وہ بستی جس کا رَستہ دل کے اندرہے
ذوق بڑھانے کا طریقہ: مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کا مقدّس سفرآپ کومبارَک ہو! راستے بھر دُرُود وسلام کی کثرت کیجئے اورنعتیہ اَشعار پڑھتے رہئے یا ہوسکے تو ٹیپ ریکارڈر پرخوش اِلحان نعت خوانوں کے کیسٹ سنتے رہئے کہ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ اس طرح ترقّیِ ذوق کے اسباب ہوں گے۔ مدینۂ پاک کی عَظَمت ورِفعَت کا تَصَوُّر باندھتے رہئے ، اس کے فضائل پر غور کرتے رہئے۔[2] ؎ اِس سے بھی اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کا شوق مزید بڑھے گا ۔
مدینہ کتنی دیر میں آ ئے گا!: مکّۂ مکرَّمہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً سے مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کا فاصِلہ تقریباً 425کِلومیٹر ہے جسے عام دنوں میں بس تقریباً 5گھنٹے میں طے کرلیتی ہے مگر حج کے دنوں میں بعض مصلَحتوں کی بِنا پر رفتا رکم رکھی جاتی اور پہنچنے میں بس تقریباً 8تا10گھنٹے لے لیتی ہے۔ ’’ مرکزِ استِقبالِ حُجّاج ‘‘ پر بس رُکتی ہے ، یہاں پاسپورٹ کا اِندِراج ہوتا ہے اور پاسپورٹ رکھ کر ایک کارڈ جاری کیا جاتا ہے جسے حاجی نے سنبھال کررکھنا ہوتا ہے ، یہاں کی کاروائی میں بسا اوقات کئی گھنٹے بھی لگ جاتے ہیں ، صبر کا پھل میٹھا ہے۔عَنقریب آپ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ میٹھے مدینے کے گلی کوچوں کے جلوے لوٹیں گے ، جلدہی آپ گنبد خضرا کے دیدار سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کریں گے۔جُوں ہی دُور سیمسجِدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے مِینارِ نور بار پُروقار پر نگاہ پڑیگی ، سبز سبز گنبد نظر آئیگا اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کے قلب میں ہَلچَل مچ جائیگی اور آنکھوں سے بے اِختیار آنسو چھلک پڑیں گے۔ ؎
صائم ؔکمالِ ضَبط کی کوشش تو کی مگر پَلکوں کا حلقہ توڑ کر آنسو نکل گئے
ہَوائے مدینہ سے آپ کے مشامِ دماغ مُعطّرہورہے ہوں گے اور آپ اپنی رُوح میں تازَگی محسوس کر رہے ہوں گے ، ہوسکے تو ننگے پاؤں روتے ہوئے مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ
[1] ۔۔۔ فُلاں کی جگہ جس کے نام پر حج کرنا چاہتا ہے اس کا نام لے مثلاً لَبَّیْکَ عَنْ عَبْدِ الرَّحمٰنِ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْک۔۔اِلَخ
[2] ۔۔۔ دورانِ قِیام حرمینِ شریفین فضائلِ مکہ ومدینہ پر مبنی کُتب کا مُطالَعَہ ترقی ذوق کا بہترین ذَرِیعہ ہے نیز عشقِ رسول صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ والہٖ وسلَّمبڑھانے کے لئے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہکا نعتیہ دیوان ’’حدائقِ بخشش‘‘ اور استاذ زَمَن مولانا حسن رضا خانعلیہ رَحمۃُ اللّٰہِ ذُوالمِنَنکا کلام’’ذوقِ نعت ‘‘ کا خوب مُطالَعَہ فرمایئے۔