الصَّلَاۃ ُوَالسَّلَامکو خطاب ہوا: اے موسیٰ! مجھ سے اُس منہ کے ساتھ دُعا مانگ جس سے تُو نے گناہ نہ کیا۔ عرض کی: الٰہی! وہ منہ کہاں سے لاؤں ؟ (یہاں انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلَاۃ ُوَالسَّلَام کی تواضُع ہے ورنہ وہ یقینا ہر گناہ سے معصوم ہیں ) فرمایا: اَوروں سے دُعا کرا کہ اُن کے مُنہ سے تُو نے گناہ نہ کیا۔ (مُلَخَّص اَز مثنوی مولانا روم دفتر سوم ص۳۱)
[9] : حاجت سے زائد تَوشہ (اَخراجات) رکھ کر رُفَقاء پر خَرْچ اور فُقَراء پر تصدُّق (یعنی خیرات) کر کے ثواب کماؤں گا ۔ (ایسا کرنا حجِّ مَبرور کی نشانی ہے ، ) مَبرور اُس حج اور عمرہ کو کہتے ہیں کہ جس میں خیر اور بھلائی ہو ، کوئی گناہ نہ ہو ، دِکھاواسنانا نہ ہو ، لوگوں کے ساتھ اِحسان کرنا ، کھانا کھلانا ، نَرْم کلام کرنا ، سلام پھیلانا ، خوش خُلقی سے پیش آنا ، یہ سب چیزیں ہیں جو حج کو مبرور بناتی ہیں ۔ جبکہ کھاناکھلانا بھی حجِّ مَبرور میں داخِل ہے تو حاجت سے زیادہ تَوشہ ساتھ لو تا کہ رفیقوں کی مدد اور فقیروں پر تصدُّق بھی کرتے چلو۔ اصل میں مَبرور ’’ بِر ‘‘ سے بنا ہے۔ جس کے معنیٰ اُس اطاعت اور اِحسان کے ہیں جس سے خدا کا تقرُّب حاصل کیا جاتاہے۔ (کتاب الحج ، ص ۹۸) )
[10] : زَبان اور آنکھ وغیرہ کی حفاظت کروں گا۔ (نصیحتوں کے مَدَنی پھولصَفْحَہ 29 اور 30پر ہے: (۱) (حدیثِ پاک ہے: اللہ عَزَّ وَجَلَّ فرماتا ہے) اے ابنِ آدم! تیرا دِین اُس وَقت تک دُرُست نہیں ہوسکتاجب تک تیری زَبان سیدھی نہ ہواور تیری زَبان تب تک سیدھی نہیں ہوسکتی جب تک تُواپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ سے حَیا نہ کرے۔ (۲) جس نے میری حرام کردہ چیزوں سے اپنی آنکھوں کوجُھکا لیا (یعنی انہیں دیکھنے سے بچا) میں اسے جہنَّم سے امان (یعنی پناہ) عطاکر دوں گا ) ۔
[11] : دَورانِ سفر ذِکر ودُرُود سے دل بہلاؤں گا ۔ ( اس سے فِرِشتہ ساتھ رہے گا ! گانے باجے اورلَغوِیات کا سلسلہ رکھا تو شیطان ساتھ رہے گا) ۔
[12] : اپنے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے دُعا کرتا رہوں گا۔ ( مسافِر کی دعا قَبول ہوتی ہے۔ نیز ’’ فضائلِ دُعا ‘‘ صفحہ 220پر ہے: مسلمان کہ مسلمان کے لیے اُس کی غَیْبَت (یعنی غیر موجودَگی) میں (جو) دُعا مانگے (وہ قَبول ہوتی ہے) حدیث شر یف میں ہے: یہ (یعنی غیر موجودَگی والی ) دُعا نہایت جلد قَبول ہوتی ہے۔ فِرِشتے کہتے ہیں ـ: اُس کے حق میں تیری دعا قَبول اور تجھے بھی اِسی طرح کی نِعمت حُصُول) ) ۔
[13] : سب کے ساتھ اچّھی گفتگو کروں گا اور حسبِ حیثیَّت مسلمانوں کو کھانا کِھلاؤں گا۔ (فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: مَبرور حج کا بدلہ جنَّت ہے۔ عَرض کی گئی : یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!حج کی مَبروریّت کس چیز کے ساتھ ہے ؟ فرمایا: اچّھی گفتگو اور کھانا کھلانا۔ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۴۷۹ حدیث۴۱۱۹)
[14] : پریشانیاں آئیں گی توصَبْر کروں گا ۔ (حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام ابوحامد محمدبن محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں : مال یا بدن میں کوئی نقصان یا مصیبت پہنچے تو اُسے خوش دلی سے قَبول کرے کیوں کہ یہ اِس کے حجِّ مَبرور کی علامت ہے۔ (اِحیاءُالعلوم ج۱ ص ۳۵۴) ۔
[15] : اپنے رُفَقاء کے ساتھ حُسنِ اَخلاق کا مُظاہَرہ کرتے ہوئے ان کے آرام وغیرہ کا خیال رکھوں گا ، غصّے سے بچوں گا ، بے کار باتوں میں نہیں پڑوں گا ، لوگوں کی (ناخوشگوار) باتیں برداشت کروں گا۔
[16] : تمام خوش عقیدہ مسلمان عَرَبوں سے (وہ چاہے کتنی ہی سختی کریں ، میں ) نرمی کے ساتھ پیش آؤں گا۔ ( بہارِ شریعت جلد۱حصّہ6 صَفْحَہ1060پر ہے: بدوؤں اور سب عَرَبیوں سے بَہُت نرمی کے ساتھ پیش آئے ، اگر وہ سختی کریں (بھی تو) ادب سے تَحَمُّل (یعنی برداشت) کرے اِس پر شَفاعت نصیب ہونے کا وعدہ فرمایا ہے۔ خُصُوصاً اہلِ حَرَمین ، خُصُوصاً اہلِ مدینہ۔ اہلِ عَرَب کے اَفعال پر اعتِراض نہ کرے ، نہ دل میں کَدُورَت (یعنی مَیل) لائے ، اس میں دونوں جہاں کی سعادت ہے) ۔
[17] : بِھیڑ کے موقع پر بھی لوگوں کو اَذِیَّت نہ پہنچے اِس کا خیال رکھوں گا اور اگر خود کو کسی سے تکلیف پہنچی تو صَبْر کرتے ہوئے مُعاف کروں گا۔ (حدیثِ پاک میں ہے: جو شخص اپنے غُصّے کو روکے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّ قیامت کے روز اُس سے اپنا عذاب روک دے گا۔ (شُعَبُ الْاِیمان ج۶ ص۳۱۵ حدیث ۸۳۱۱) ) ۔
[18] : مسلمانوں پر اِنفِرادی کوشِش کرتے ہوئے ’’ نیکی کی دعوت ‘‘ دے کر ثواب کماؤں گا۔
[19] : سفر کی سنّتوں اور آداب کا حتَّی الامکان خیال رکھوں گا۔
[20] : اِحْرام میں لَبَّیْککی خوب کثرت کروں گا۔ ( اسلامی بھائی بُلند آواز سے کہے اور اسلامی بہن پَست آواز سے)
[21] : مسجِدَینِ کَریْمَین (بلکہ ہر جگہ ہر مسجد ) میں داخِل ہوتے وَقْت پہلے سیدھا پاؤں اندر رکھوں گااور مسجِد میں داخِلے کی دُعاپڑھوں گا۔اِسی طرح نکلتے وَقت اُلٹا پہلے نکالوں گا اور باہَرنکلنے کی دُعا پڑھوں گا۔
[22] : جب جب کسی مسجِد خُصُوصاً مسجِدَینِ کَریْمَین میں داخِلہ نصیب ہوا ، نفلی اعتِکاف کی نیّت کر کے ثواب کماؤں گا ۔ (یاد رہے! مسجِد میں کھانا پینا ، آبِ زم زم پینا ، سَحَری و اِفطار کرنا اور سونا جائز نہیں ، اعتِکاف کی نیّت کی ہو گی تو ضمناً یہ سب کام جائز ہو جائیں گے ) [23] : کعبۂ مُشَرَّفہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً پر پہلی نظر پڑتے ہی دُرُودِ پاک پڑھ کر دعا مانگوں گا۔
[24] : دَورانِ طواف ’’ مُسْتَجاب ‘‘ پر (جہاں ستّرہزارفِرِشتے دُعا پر اٰمین کہنے کے لئے مقرَّر ہیں وہاں ) اپنی اور ساری امّت کی مغفِرت کیلئے دعا کروں گا۔
[25] : جب جب آبِ زم زم پیوں گا ، ادائے سنَّت کی نیّت سے قبلہ رُو ، کھڑے ہو کر ، بِسمِ اللّٰہ پڑھ کر ، چوس چوس کر تین سانس میں ، پیٹ بھر کر پیوں گا ، پھر دُعامانگوں گا کہ وقتِ قَبول ہے۔ (فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: ہم میں اور مُنافِقوں میں یہ فرق ہے کہ وہ زمزم کُوکھ (یعنی پیٹ ) بھر نہیں پیتے۔ (ابن ماجہ ج ۳ ص ۴۸۹ حدیث ۳۰۶۱ ) )
[26] : مُلتَزَم سے لپٹتے وَقت یہ نیَّت کیجئے کہمَحَبَّت و شوق کے ساتھ کعبہ اور ربِّ کعبہ عَزَّ وَجَلَّ کا قُرب حاصِل کر رہا ہوں اور اُس کے تعلُّق سے بَرَکت پا رہاہوں ۔ (اُس وَقت یہ امّید رکھئے کہ بدن کا ہر وہ حصّہ جو کعبۂ مَشرَّفہ سے مَس (TOUCH) ہوا ہے اِنْ شَآءَاللہ جہنَّم سے آزاد ہوگا) ۔