[27] : غلافِ کعبہ سے چمٹتے وَقت یہ نیّت کیجئے کہ مغفِرت وعافیت کے سُوال میں اِصرار کر رہا ہوں ، جیسے کوئی خطاکار اُس شخص کے کپڑوں سے لپٹ کر گڑ گڑا تا ہے جس کا وہ مُجرِم ہے اور خوب عاجِزی کرتا ہے کہ جب تک اپنے جُرم کی مُعافی اور آیَندہ کے اَمن و سلامَتی کی ضمانت نہیں ملے گی دامن نہیں چھوڑوں گا۔ ( غلافِ کعبہ وغیرہ پر لوگ کافی خوشبو لگاتے ہیں لہٰذا اِحرام کی حالت میں اِحتیاط کیجئے ) ۔
[28] : رَمیِ جَمرات میں حضرتِ سیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مُشابَہَت ( یعنی مُوافَقَت) اورسرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنّت پر عمل ، شیطان کو رُسوا کر کے مار بھگانے اور خواہِشاتِ نفسانی کو رَجْم (یعنی سنگسار) کرنے کی نیّت کیجئے۔ (حکایت: حضرتِ سیِّدُنا جُنیدِ بغدادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الھَادِینے ایک حاجی سے پوچھا کہ تُو نے رَمی کے وَقت نفسانی خواہِشات کوکنکریاں ماریں یا نہیں ؟ اُس نے جواب دیا: نہیں ۔ فرمایا : توپھر تُو نے رمی ہی نہیں کی۔ (یعنی رَمی کا پورا حق ادا نہیں کیا) (مُلَخَّص از کشف المحجوب ص ۳۶۳ ) )
[29] : سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بالخصوص چھ مقامات یعنی صَفا ، مَروہ ، عَرَفات ، مُزدَلِفہ ، جَمرۂ اُولیٰ ، جَمرۂ وُسطٰی پر دعا کیلئے ٹھہرے ، میں بھی ادائے مصطَفٰے کی ادا کی نیّت سے ان جگہوں میں جہاں جہاں ممکِن ہوا و ہاں رُک کر دُعا مانگوں گا۔
[30] : طواف وسَعی میں لوگوں کو دھکّے دینے سے بچتا رہوں گا۔ (جان بوجھ کر کسی کو اس طرح دھکّے دینا کہ ایذا پہنچے بندے کی حق تلفی اور گناہ ہے ، توبہ بھی کرنی ہو گی اور جس کو اِیذا پہنچائی اُس سے مُعاف بھی کرانا ہو گا۔ بُزُرگوں سے منقول ہے: ایک دانگ کی (یعنی معمولی سی) مقدار اللہ تَعَالٰی کے کسی ناپسندیدہ فِعل کو ترک کر دینا مجھے پانچ سو نفلی حج کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ (جامع العلوم والحکم لابن رجب ص ۱۲۵ ) ) ۔
[31] : عُلَماء ومشائخِ اہلسنّت کی زیارت و صُحبت سے بَرَکت حاصِل کروں گا ، ان سے اپنے لئے بے حساب مغفِرت کی دعا کرواؤں گا۔
[32] : عبادات کی کثرت کروں گا بالخصوص نَمازِ پنجگانہ پابندی سے اداکروں گا۔
[33] : گناہوں سے ہمیشہ کیلئے توبہ کرتا ہوں اورصِرف اچّھی صُحبت میں رہا کروں گا ۔ (اِحیاء ُالعلوم میں ہے : حج کی مَبرورِ یَّتکی ایک علامت یہ ہے کہ جو گناہ کرتا تھا اُنہیں چھوڑ دے ، بُرے دوستوں سے کَنارہ کش ہو کر نیک بندوں سے دوستی کرے ، کھیل کود اور غفلت بھری بیٹھکوں کو ترک کر کے ذِکر اور بیدار ی کی مَجالِس اختِیار کرے۔ امام غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی ایک اور جگہ فرماتے ہیں : حجِّ مَبرور کی علامت یہ ہے کہ دنیا سے بے رغبت اور آخِرت کی جانب مُتَوجِّہ ہو اور بیتُ اللّٰہ شریف کی ملاقات کے بعد اپنے ربِّ کائنات عَزَّ وَجَلَّ کی ملاقات کیلئے تیّاری کرے ۔ (اِحیاءُ العلوم ج ۱ ص ۳۴۹ ، ۳۵۴ ) )
[34] : واپَسی کے بعد گناہوں کے قریب بھی نہ جاؤں گا ، نیکیوں میں خوب اِضافہ کروں گا اور سنّتوں پر مزید عمل بڑھاؤں گا (اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (حج سے پہلے کے حُقُوقُ اللّٰہ اور حُقوقُ العِباد جس کے ذمّے تھے) اگر بعدِ حج با وَصفِ قدرت اُن اُمور (مَثَلاً قضا نَمازوروزہ ، باقی ماندہ زکوٰۃ وغیرہ اورتَلَف کردہ بقیّہ حُقُوقُ العباد کی ادائیگی ) میں قاصِر رہا تو یہ سب گناہ از سرِنو اُس کے سر ہوں گے کہ حُقُوق تو خودباقی ہی تھے اُن کے ادا میں پھرتاخیر و تقصیرسے گناہ تازہ ہوئے اور وہ حج ان کے اِزالے کو کافی نہ ہو گا کہ حج گزرے (یعنی پچھلے) گناہوں کو دھوتا ہے آیَندہ کے لئے پروانۂ بے قَیدی (یعنی گناہ کرنے کا اجازت نامہ ) نہیں ہوتا بلکہ حجِ مَبرور کی نشانی ہی یہ ہے کہ پہلے سے اچّھا ہو کر پلٹے۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۴ ص ۴۶۶ ) ) ۔
[35] : مکّۂ مکرَّمہ اور مدینۂ منوَّرہ زَادَھُمَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے یاد گار مبارَک مقامات کی زِیارت کروں گا۔
[36] : سعادت سمجھتے ہوئے بہ نیَّتِ ثواب مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی زِیارت کروں گا۔
[37] : سرکارِ مدینہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کے دربارِ گُہَر بار کی پہلی حاضِری سے قبل غسل کروں گا ، نیا سفید لباس ، سر پر نیا سربندنئی ٹوپی اور اس پر نیا عمامہ شریف باندھوں گا ، سُرمہ اورعمدہ خوشبو لگاؤں گا۔
[38] اللہ عَزَّ وَجَلَّکے اس فرمانِ عالیشان : وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا (۶۴) (پ۵ ، النساء: ۶۴) (ترجَمۂ کنزالایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب! تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھراللہسے مُعافی چاہیں ا ور رسول ان کی شَفاعت فرمائے تو ضَرور اللہکوبَہُت توبہ قَبول کرنے والا مہربان پائیں ) پر عمل کرتے ہوئے مدینے کے شَہَنْشاہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہِ بیکس پناہ میں حاضِری دوں گا۔
[39] : اگر بس میں ہوا تواپنے مُحسن وغمگُسار آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی با رگاہ ِ بے کس پناہ میں اس طرح حاضِرہوں گاجس طرح ایک بھاگا ہوا غلام اپنے آقا کی بارگاہ میں لرزتا کانپتا ، آنسو بہاتاحاضِر ہوتا ہے ۔ (حکایت : سیّدُنا امام مالِکعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْخَالِق جب سیّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ذِکر کرتے رنگ اُن کا بدل جاتا اورجُھک جاتے۔ حکایت : حضرتِ سیِّدُنا امامِ مالِکعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْخَالِق سے کسی نے حضرتِ سیِّدُنا اَیُّوب سَخْتِیَانی قُدِّسَ سِرُّہُ الرَّبَانِی کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: میں جن حَضْرات سے روایت کرتا ہوں وہ اُن سب میں افضل ہیں ، میں نے انہیں دو مرتبہ سفرِ حج میں دیکھا کہ جب ان کے سامنے نبیِّ کریم ، رَء ُوْفٌ رَّحیم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلَاۃِ وَالسَّلَام کا ذکرِ انور ہوتا تو وہ اتنا روتے کہ مجھے ان پر رَحم آنے لگتا۔میں نے ان میں جب تعظیمِ مصطَفٰے وعشقِ حبیبِ خدا کا یہ عالَم دیکھاتو مُتأَثِّر ہو کران سے احادیثِ مبارَکہ روایت کرنی شُروع کیں ۔ (الشفاء ج۲ ص ۴۱ ، ۴۲) ) {40} سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شاہی دربار میں ادب واحتِرام اور ذوق وشوق کے ساتھ درد بھری مُعتَدِل (یعنی درمیانی) آواز میں سلام عرض کروں گا ۔
[41] : حکمِ قراٰنی: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ (۲) (پ۲۶ ، الحجرات: ۲) (ترجَمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو !اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حُضُور بات چِلّا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چِلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اَکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو) پرعمل کرتے ہوئے اپنی آواز کوپَست اور قدرے دھیمی رکھوں گا۔