شارحِ بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی مذکورہ احادیثِ مبارَکہ کے تحت فرماتے ہیں : جُنُبی ہونے (یعنی غسل فرض ہونے) کے بعد اگر سونا چاہے تو مُستَحَب ہے کہ وُضو کرے ، فوراً غسل کرنا واجِب نہیں البتّہ اتنی تاخیر نہ کرے کہ نَماز کا وَقت نکل جائے ۔یِہی اِس حدیث کامَحمل ([1]) ہے ۔ حضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ابو داوٗد ونَسائی وغیرہ میں مروی ہے کہ فرمایا : اُس گھر میں فِرِشتے نہیں جاتے جس میں تصویر یا کتّایا جُنُبی (یعنی بے غُسلا) ہو ۔ (سُنَنُ اَ بِی دَاوٗد ،ج۱ص۱۰۹ حدیث ۲۲۷) اِس حدیث سے مُراد یہی ہے کہ اتنی دیر تک غسل نہ کرے کہ نَماز کا وَقت نکل جائے اوروہ جُنُبی (یعنی بے غُسلا) رہنے کا عادی ہواور یہی مطلب بُزُرگوں کے اس ارشاد کا ہے کہ حالتِ جَنابت میں کھانے پینے سے رِزق میں تنگی ہوتی ہے ۔ ( نُزھۃُ اْلقاری ج۱ ص۷۷۰۔۷۷۱ )
غُسل کا طریقہ ( حنفی)
بِغیرزَبان ہِلائے دل میں اِس طرح نیّت کیجئے کہ میں پاکی حاصِل کرنے کیلئے غسل کرتی ہوں ۔پہلے دونوں ہاتھ پہنچوں تک تین تین بار دھوئیے ، پھراِستِنجے کی جگہ دھوئیے خواہ نَجاست ہویانہ ہو،پھرجِسم پراگرکہیں نَجاست ہوتو اُس کودُورکیجئے پھرنمازکاساوُضوکیجئے اگر پاؤں رکھنے کی جگہ پر پانی جمع ہے توپاؤں نہ دھوئیے، اور اگر سخت زمین ہے جیسا کہ آج کل عُمُوماً غسل خانوں کی ہوتی ہے یا چَوکی وغیرہ پر غسل کررہی ہیں تو پاؤں بھی دھولیجئے،پھربدن پرتیل کی طرح پانی چُپَڑلیجئے ، خُصو صاً سردیوں میں (اِس دَوران صابُن بھی لگاسکتی ہیں ) پھرتین بار سید ھے کندھے پرپانی بہایئے،پھرتین باراُلٹے کندھے پر، پھرسر پراورتمام بدن پرتین بار، پھر غسل کی جگہ سے الگ ہوجائیے، اگروُضوکرنے میں پاؤں نہیں دھوئے تھے تواب دھو لیجئے ۔ بہارِ شریعت حصّہ 2صَفْحَہ 42پر ہے: ’’ سِتْر کھلا ہو تو قِبلہ کو منہ کرنا نہ چاہیے اور تہبند باندھے ہو توحَرَج نہیں ۔ ‘‘ تما م بدن پرہاتھ پھیر کرمل کرنہائیے،ایسی جگہ نہایئے کہ کسی کی نظر نہ پڑے، دَورانِ غسل کسی قسم کی گفتگومت کیجئے، کوئی دُعا بھی نہ پڑھئے،نہانے کے بعدتَولیہ وغیرہ سے بدن پُونچھنے میں حَرَج نہیں ۔ نہا نے کے بعد فورًاکپڑے پہن لیجئے۔ اگرمکروہ وَقت نہ ہوتودو رَکعت نَفل اداکرنا مُستَحَب ہے۔ (عامۂ کتبِ فقہِ حنفی )
{۱} کُلّی کرنا {۲} ناک میں پانی چڑھانا {۳} تمام ظاہِر بد ن پرپانی بہانا ۔ (فتاوٰٰی عالمگیری ج ۱ ص ۱۳ )
{۱} کُلّی کرنا
مُنہ میں تھوڑاساپانی لے کرپَچ کرکے ڈال دینے کانام کُلّی نہیں بلکہ منہ کے ہرپُرزے،گوشے،ہونٹ سے حَلْق کی جڑتک ہرجگہ پانی بہ جائے۔اِسی طرح داڑھوں کے پیچھے گالوں کی تہ میں ،دانتوں کی کھِڑکیوں اور جڑوں اورزَبان کی ہرکروٹ پربلکہ حَلق کے کَنارے تک پانی بہے۔ روزہ نہ ہو توغَرغَرہ بھی کر لیجئے کہ سنّت ہے۔ دانتوں میں چھالیہ کے دانے یا بوٹی کے رَیشے وغیرہ ہوں توان کو چھُڑانا ضَروری ہے۔ ہاں اگر چُھڑانے میں ضَرر ( یعنی نقصان ) کا اندیشہ ہوتومُعاف ہے ۔ غُسل سے قبل دانتوں میں ریشے وغیرہ محسوس نہ ہوئے اوررَہ گئے نَمازبھی پڑھ لی بعد کو معلوم ہو نے پرچُھڑ ا کرپانی بہانافرض ہے،پہلے جونَمازپڑھی تھی وہ ہوگئی۔ جو ہِلتا دانت مسالے سے جمایا گیا یا تارسے باندھاگیا اور تاریامسا لے کے نیچے پانی نہ پہنچتاہوتومُعاف ہے۔ (بہارِشریعت حصّہ ۲ ص۳۸،فتاوٰی رضویہ ج۱ص ۴۳۹۔۴۴۰)
{۲} ناک میں پانی چڑھانا
جلدی جلدی ناک کی نوک پرپانی لگالینے سے کام نہیں چلے گابلکہ جہاں تک نرم جگہ ہے یعنی سخت ہڈّی کے شُروع تک دُھلنالازِمی ہے۔اوریہ یوں ہوسکے گاکہ پانی کوسُونگھ کر اوپرکھینچئے۔یہ خیال رکھئے کہ بال برابربھی جگہ دُھلنے سے نہ رَہ جائے ورنہ غسل نہ ہوگا۔ناک کے اندر اگررِینٹھ سُوکھ گئی ہے تواس کا چھُڑانا فرض ہے۔ نیز ناک کے بالوں کا دھونابھی فرض ہے۔ (اَیضاً،اَیضاً ص ۴۴۲،۴۴۳)
{۳} تَمام ظاہِری بدن پرپانی بہانا
سَرکے بالوں سے لے کرپاؤں کے تَلووں تک جِسم کے ہر پُرزے اور ہر ہررُونگٹے پرپانی بہ جاناضَروری ہے،جِسم کی بعض جگہیں ایسی ہیں کہ اگر احتیاط نہ کی تووہ سُوکھی رَہ جائیں گی اورغسل نہ ہوگا۔ (بہارِ شریعت ،حصہ ۲،ص۳۹)
’’ صَلَوات اللّٰہِ علیکَ یا رسولَ اللّٰہ ‘‘ کے تیئس حُرُوف کی نسبت سے اسلامی بہنوں کیلئے غسل کی23 احتیاطیں
{1} اگراسلامی بہن کے سرکے بال گُندھے ہوئے ہوں توصِرف جڑتر کرلینا ضَروری ہے کھولنا ضَروری نہیں ۔ہاں اگرچوٹی اتنی سخت گُندھی ہوئی ہوکہ بے