حساب بھی گیہوں کے موجودہ بھاؤسے لگانا ہوگا۔ اِسی طرح روزوں کا فِدیہ بھی فی روزہ ایک صَدَقۂ فطر ہے نَمازوں کا فِدیہ ادا کرنے کے بعد روزوں کا بھی اِسی طریقے سے فِدیہ ادا کر سکتے ہیں ۔ غریب و امیر سبھی فِدیہ کا حیلہ کر سکتے ہیں ۔ اگر وُرَثا اپنے مرحُومِین کیلئے یہ عمل کریں تو یہ میِّت کی زبر دست امداد ہو گی، اِس طرح مرنے والا بھی اِن شاء اللّٰہ عَزَّوَجَل فرض کے بوجھ سے آزاد ہو گا اور وُرَثا بھی اَجرو ثواب کے مُستحق ہوں گے ۔ بعض اسلامی بہنیں مسجِد وغیرہ میں ایک قرآنِ پاک کانُسخہ دے کر اپنے من کو منا لیتی ہیں کہ ہم نے مرحوم کی تمام نَمازوں کا فِدیہ ادا کر دیا یہ ان کی غَلَط فَہمی ہے ۔ (تفصیل کیلئے دیکھئے: فتاوٰی رضویہ ،ج۸،ص۱۶۷)
مرحومہ کے فِدیہ کا ایک مَسئَلہ
عورت کی عادتِ حیض اگر معلوم ہو تو اس قَدَر دن اور نہ معلوم ہو تو ہر مہینے سے تین دن نو برس کی عمر سے مُستثنیٰ کریں (یعنی نو برس کی عمر کے بعد سے لیکر وفات تک ہرمہینے سے تین دن حیض کے سمجھ کر نکال دیں اور بقیہ جتنے دن بنیں ان کے حساب سے فدیہ ادا کر دیں ۔ ) مگر جتنی بارحَمْل رہا ہو مدّتِ حَمْل کے مہینوں سے ایاّمِ حَیض کا اِستِثناء نہ کریں ۔ (چونکہ اس مدّت میں حیض نہیں آتا اِس لئے حیض کے دن کم نہ کریں ) عورت کی عادت دربارۂ نِفاس اگر معلوم ہوتو ہرحَمْل کے بعد اُتنے دن مُستَثنیٰ کریں (یعنی کم کر دیں ) اور نہ معلوم ہوتو کچھ نہیں کہ نِفاس کے لئے جانبِ اَقَل (یعنی کم سے کم) میں شرعاً کچھ تقدیر (مقدار مقرَّر) نہیں ممکن ہے کہ ایک ہی مِنَٹ آ کر فوراً پاک ہو جائے۔ (یعنی اگر نِفاس کی مدّت یاد نہیں تو دن کم نہ کرے) (ماخوذ ازفتاوٰی رضویہ ج۸،ص۱۵۴ )
100 کوڑوں کا حیلہ
اسلامی بہنو !نَماز کے فِدیہ کا حیلہ میں نے اپنی طرف سے نہیں لکھا۔ حیلۂ شَرعی کا جواز قرآن و حدیث اورفِقہِ حنفی کی مُعتَبر کُتُب میں موجود ہے۔ چنانچہِ مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان ’’ نور العرفان ‘‘ صَفْحَہ728پر فرماتے ہیں : حضرتِ سیِّدُنا ایّوب عَلیٰ نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کی بیماری کے زمانے میں آپ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام کی زَوجۂ محترمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاایک بار خدمتِ سراپا عظمت میں تاخیر سے حاضِر ہوئیں تو آپ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَام نے قسم کھائی کہ ’’ میں تندُرُست ہو کر سو کوڑے ماروں گا۔ ‘‘ صِحّتیاب ہونے پراللّٰہعَزَّوَجَلَّ نے انہیں سو تیلیوں کی جھاڑو مارنے کا حکم ارشاد فرمایا ۔ چُنانچہِ قرآنِ پاک میں ہے :
وَ خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْؕ- (پارہ ۲۳،ص : ۴۴)
ترجَمۂ کنزالایمان: اور فرمایا کہ اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اِس سے مار دے اور قسم نہ توڑ۔
’’ عالمگیری ‘‘ میں حِیلوں کاایک مُستقِل باب ہے جس کا نام ’’ کتابُ الحِیل ‘‘ ہے چُنانچِہ ’’ عالمگیری کتابُ الحِیل ‘‘ میں ہے، ’’ جو حِیلہ کسی کا حق مارنے یا اس میں شُبہ پیدا کرنے یا باطِل سے فَریب دینے کیلئے کیا جائے وہ مکروہ ہے اور جوحِیلہ اس لئے کیا جائے کہ آدَمی حرام سے بچ جائے یا حلال کو حاصِل کر لے وہ اچّھا ہے ۔ اس قسم کے حِیلوں کے جائز ہونے کی دلیل اللّٰہعَزَّوَجَل کا یہ فر مان ہے :
وَ خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْؕ- (پارہ ۲۳،ص : ۴۴)
ترجَمۂ کنزالایمان : اور فرمایاکہ اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لیکر اس سے مار دے اور قسم نہ توڑ (فتاویٰ عالمگیری ،ج۶،ص۳۹۰)
کان چَھید نے کا رَواج کب سے ہوا؟
حیلے کے جَواز پر ایک اور دلیل مُلا حَظہ فرمایئے چُنانچِہحضرتِ سیِّدُنا عبداللہ ابنِ عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے ، ایک بارحضرت ِ سیِّدَتُناسارہ اور حضرتِ سیِّدَتُنا ہاجَرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا میں کچھ چَپقَلِش ہو گئی ۔ حضرتِ سیِّدَتُنا سارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانے قسم کھائی کہ مجھے اگر قابو ملا تو میں ہا جَرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکا کوئی عُضو کاٹوں گی ۔ اللّٰہ عزوجل نے حضرتِ سیِّدُنا جبر ئیل عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کوحضرت سیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی خدمت میں بھیجا کہ ان میں صُلح کروا دیں ۔ حضرتِ سیِّدَتُنا سارہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانے عرض کی ، ’’ مَاحِیلَۃُ یَمِیْنِی ‘‘ یعنی میری قسم کا کیا حِیلہ ہو گا ؟ تو حضرتِ سیِّدُنا ابراھیم خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پر وَحی نازِل ہوئی کہ (حضرتِ) سارہ ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا) کو حکم دو کہ وہ (حضرتِ) ہاجَرہ ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا) کے کان چَھید دیں ۔ اُسی وَقت سے عورَتوں کے کان چَھیدَنے کا رَواج پڑا۔ (غمزعُیون البصائر شرح الاشباہ والنظائر،ج۳،ص۲۹۵)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی علٰی محمَّد
اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے رِوایت ہے کہ دو جہاں کے سلطان ، سرورِ ذیشان ، محبوبِ رَحمٰنعَزَّوَجَلَّوصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وا ٰلہٖ و سلَّم