قَضائے عُمری میں یوں بھی کر سکتے ہیں کہ پہلے تمام فجر یں ادا کرلیں پھر تمام ظُہر کی نَمازیں اسی طرح عصر ‘ مغرِب اور عشاء ۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی علٰی محمَّد
قَضا ئے عُمری کا طر یقہ (حنفی)
قَضا ہر روز کی بیس رَکْعَتیں ہوتی ہیں ۔ دو فرض فجرکے، چار ظہر ، چار عصر ، تین مغرِب ، چار عشاء کے اور تین وِتر ۔نیّت اِس طرح کیجئے،مَثَلاً ’’ سب سے پہلی فَجرجو مجھ سے قَضا ہوئی اُس کو ادا کرتی ہوں ۔ ‘‘ ہرنَماز میں اِسی طرح نیّت کیجئے۔ جس پر بکثرت قَضانَمازیں ہیں وہ آسانی کیلئے اگر یُوں بھی ادا کرے تو جائز ہے کہ ہر رُکوع اور ہرسَجدہ میں تین تین بار سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْعَظِیْم سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کی جگہ صرف ایک ایک بار کہے ۔ مگر یہ ہمیشہ اور ہر طرح کی نَماز میں یاد رکھنا چاہئے کہ جب رکُوع میں پور ی پَہُنچ جائے اُس وقت سُبحٰن کا ’’ سین ‘‘ شُر و ع کرے اور جب عظیم کا ’’ میم ‘‘ ختم کر چکے اُس وقت رُکوع سے سر اٹھائے ۔ اسی طرح سَجدہ میں بھی کرے۔ ایک تخفیف تویہ ہوئی اور دوسری یہ کہ فرضوں کی تیسری اور چوتھی رَکعَت میں اَلحمد شریف کی جگہ فَقَط ’’ سُبحٰنَ اللّٰہِ ‘‘ تین بار کہہ کر رُکوع کر لے ۔ مگر وِتر کی تینوں رَکْعَتوں میں اَلحمد شریف اور سُورت دونوں ضَرور پڑھی جائیں ۔ تیسری تَخفیف یہ کہ قعدۂ اَخیرہ میں تَشَھُّد یعنی اَلتَّحِیّات کے بعد دونوں دُرُودوں اور دعا کی جگہ صِرف ’’ اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ ‘‘ کہہ کر سلام پھیر دے ۔ چوتھی تَخفیف یہ کہ وِتْر کی تیسری رَکعت میں دعائے قُنُوت کی جگہ اللّٰہُ اکبر کہہ کر فَقَط ایک بار یا تین بار ’’ رَبِّ اغْفِر لِیْ‘ ‘ کہے ۔ ( مُلَخَّص از فتاویٰ رضویہ ج۸ص۱۵۷)
اگر حالتِ سفر کی قَضانَماز حالتِ اِقامت میں پڑھیں گی تو قَصر ہی پڑھیں گی اور حالتِ اِقامت کی قَضا نَماز سفر میں قضا کریں گی تو پوری پڑھیں گی یعنی قصر نہیں کریں گی ۔ (عالمگیری ج۱ص ۱۲۱)
جو عورت مَعاذَاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ مُرتَد ہ ہوگئی پھر اسلام لائی تو زمانۂ اِرتِداد کی نَمازوں کی قَضا نہیں اورمُرتَد ہ ہونے سے پہلے زمانۂ اسلام میں جو نمازیں جاتی رہی تھیں اُن کی قضا واجِب ہے۔ ( رَدُّالْمُحتَار،ج۲،ص۶۴۷)
دائی (MIDWIFE) نَماز پڑھے گی تو بچّے کے مر جانے کا اندیشہ ہے ، نَمازقَضا کرنے کیلئے یہ عُذر ہے ۔ ( رَدُّالْمُحتَار،ج۲،ص۶۲۷)
ایسی مریضہ کہ اشارہ سے بھی نَماز نہیں پڑھ سکتی اگر یہ حالت پورے چھ وقت تک رہی تو اس حالت میں جو نَمازیں فوت ہوئیں اُن کی قضا واجِب نہیں ۔ (عالمگیری ج۱،ص۱۲۱)
عمر بھر کی نَمازیں دوبارہ پڑھنا
جس کی نَماز وں میں نقصان و کراہت ہو وہ تمام عمر کی نَمازیں پھیرے تو اچّھی بات ہے اور کوئی خرابی نہ ہو تو نہ چاہئے اور کرے تو فجر و عصر کے بعد نہ پڑھے اور تمام رَکْعتیں بھری پڑھے اور وِتر میں قُنُوت پڑھ کر تیسری کے بعدقَعدہ کر کے ، پھر ایک اور ملائے کہ چار ہو جائیں ۔ (عالمگیری ج۱،ص۱۲۴)
قَضا کالَفظ کہنا بھول گئی تو کوئی حرج نہیں
میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعلیْہ رحْمَۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں : ہمارے عُلماء تَصرِیح فرماتے ہیں : قَضا بہ نیّتِ ادا اور ادا بہ نیّتِ قضا دونوں صحیح ہیں ۔ (فتاوٰی رضویہ ،ج۸ص۱۶۱ )
نوافِل کی جگہ قَضائے عمری پڑھئے
قَضا نمازیں نوافِل سے اَہَمّ ہیں یعنی جس وقت نَفل پڑھتی ہے اُنہیں چھوڑ کر اُن کے بد لے قَضائیں پڑھے کہبَرِیُّ الذِّمَّہہو جائے البتّہ تراویح اور بارہ رکْعَتیں سُنَّتِمُؤَکَّدہ کی نہ چھوڑے۔ (بہارِ شریعت حصہ۴ص۵۵، رَدُّالْمُحتَار،ج۱،ص۶۴۶)
فَجر و عَصر کے بعد نوافِل نہیں پڑھ سکتے
نَماز ِ فَجر (کے پورے وقت میں یعنی صبحِ صادق سے لیکر طلوعِ آفتاب تک جبکہ) عَصر کے بعد وہ تمام نوافِل ادا کرنے مکروہِ ( تحریمی) ہیں جو قَصداً ہوں اگر چِہ تَحِیّۃُ