مغفِرت کردی اور مجھے تاج پہنا کر داخِلِ جنّت فرمایا۔ (اَلْقَوْلُ الْبَدِیع، ص۲۵۴)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد
اَمیرُ المُؤمِنِین حضرت ِسیِّدُناعُمر بن خطّا ب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ جب مُؤذِّن اَللّٰہُ اَکْبَر اَللّٰہُ اَکْبَرکہے تو تم میں سے کوئی اَللّٰہُ اَکْبَراَللّٰہُ اَکْبَر کہے، پھر مؤذِّن اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُکہے تووہ شخص اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہے، پھر مؤذِّن اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِکہے تووہ شخص اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًارَّسُوْلُ اللّٰہِ کہے ،پھرمؤذِّن حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِکہے تووہ شخص لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ کہے ،پھرمؤذِّن حَیَّ عَلَی الْفَلاَحِ کہے تو وہ شخص لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ کہے ، پھرجبمؤذِّن اَللّٰہُ اَکْبَرُ اللّٰہُ اَکْبَرُ کہے تو وہ شخص اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُکہے اور جبمؤذِّن لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُکہے اور یہ شخص صدق دل سے لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہے تو جنت میں داخِل ہوگا۔ ‘‘ (صَحِیح مُسلِم ، ص ۲۰۳حدیث ۳۸۵ )
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں : ’’ ظاہر یہ ہے کہ مِنْ قَلْبِہٖ (یعنی صدق دل سے کہنے ) کاتعلق سارے جواب سے ہے یعنی اذان کا پورا جواب سچے دل سے دے کیونکہ بغیر اخلاص کوئی عبادت قبول نہیں ۔ ‘‘ (مرأۃ المناجیح، ج۱ ص۴۱۲)
اذان کا جواب دینے والا جنّتی ہوگیا
حضرت سیِّدُناابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ایک صاحِب جن کا بظاہِر کو ئی بَہُت بڑا نیک عمل نہ تھا ،وہ فوت ہوگئے تورسولُ اللہ عَزَّ وَجَلَّ وَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی موجو دَ گی میں فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جنّت میں داخِل کردیا ہے۔اس پرلوگ مُتَعَجِّب ہوئے کیونکہ بظاہر ان کا کوئی بڑاعمل نہ تھا۔ چُنانچِہ ایک صَحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اُن کے گھر گئے اوران کی بیوہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ا سے پوچھا کہ اُن کا کوئی خاص عمل ہمیں بتائیے ، تواُنہوں نے جواب دیا : اور تو کوئی خاص بڑاعمل مجھے معلوم نہیں ،صِرف اتنا جانتی ہوں کہ دن ہویا رات ، جب بھی وہ اذان سنتے توجواب ضَروردیتے تھے ۔ (تاریخ دِمشق لابن عَساکِر ج ۴۰ ص ۴۱۲،۴۱۳ ملخّصاً) اللّٰہ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔اٰمین بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
گُنَہِ گداکاحساب کیاوہ اگرچِہ لاکھ سے ہیں سِوا
مگراے عَفُوتِرے عَفْوکاتوحِساب ہے نہ شُمارہے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی علٰی محمَّد
مُؤَذِّن صاحِب کوچاہئے کہ اَذان کے کلمات ٹھہرٹھہر کرکہیں ۔اَللّٰہُ اَکْبَر اَللّٰہُ اَکبَردونوں مل کر ( بِغیر سَکْتہ کئے ایک ساتھ پڑھنے کے اعتبار سے) ایک کَلِمہ ہیں دونوں کے بعدسَکْتہ کرے (یعنی چُپ ہوجائے) اورسَکْتہ کی مقداریہ ہے کہ جواب دینے والاجواب دے لے، (دُرِّمُختار، رَدُّالْمُحتَارج۲ص۶۶) جواب دینے والی اسلامی بہن کو چاہئے کہ جب مُؤَذِّن صاحِباَللّٰہُ اَکبَراَللّٰہُ اَکبَرکہہ کر سَکْتہ کریں یعنی خاموش ہوں اُس وقت اَللّٰہُ اَکبَراَللّٰہُ اَکبَرکہے۔اِسی طرح دیگرکَلِمات کاجواب دے۔جب مُؤَذِّن پہلی بار اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسولُ اللّٰہ کہے تویہ کہے : ۔
صلَّی اللّٰہُ عَلَیکَ یا رَسُولَ اللّٰہ
ترجمہ : آپ پر دُرُود ہویا رسولَ اللہ (عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) ( رَدُّالْمُحتَار، ج۲،ص ۸۴)
جب دوبارہ کہے تویہ کہے: ۔
قُرَّۃُ عَیْنِیْ بِکَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ (ایضاً)
یا رسولَ اللہ ! آپ سے میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔
اور ہر بار انگوٹھوں کے ناخن آنکھوں سے لگالے آخِر میں کہے: ۔
اَللّٰھُمَّ مَتِّعْنِیْ بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ۔ (ایضاً)
اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّمیری سننے اور دیکھنے کی قُوّت سے مجھے نفع عطافرما ۔
جو ایسا کرے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اسے اپنے پیچھے پیچھے جنّت میں لے جائیں گے۔ (اَیضاً)