اسلامی بہنوں کی نماز

میں   مُطْلَق نَماز کی نیَّت کافی ہے مگر احتِیاط یہ ہے کہ تَراویح میں   تَراویح یا سنّتِ وَقت کی   نیَّت کرے اور باقی سنّتوں   میں   سنّت یا مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مُتابَعَت  ( یعنی پَیروی)  کی   نیَّت کرے، اس لئے کہ بعض مَشائخ کرام رَحِمَھُمُ اللّٰہ السَّلام ان میں   مُطْلَق نَماز کی نیَّت کو نا کافی قرار دیتے ہیں   ۔  ( مُنْیَۃُ الْمُصَلِّیص ۲۲۵ )  ٭ نَمازِ نَفْل میں   مُطلَق نَماز کی  نیَّت کافی ہے اگر چہِ نفل  نیَّتمیں   نہ ہو ۔  (دُرِّمُختار، رَدُّالْمُحتار ج ۲،ص۱۱۶)  ٭ یہ   نیَّت کہ مُنہ میرا قِبلہ شریف کی طرف ہے شَرط نہیں  ۔  ( دُرِّ مُختار ، ج ۲، ص ۱۲۹)  ٭ واجِب میں   واجِب کی نیَّت کرنا ضَروری ہے اور اسے مُعَیَّن بھی کیجئے مَثَلاً نَذْر، نمازِ بعدِ طواف ( واجِبُ الطواف)  یا وہ نَفل نَماز جس کے ٹوٹ جانے سے یا جس کو توڑ ڈالنے سے اُس کی قَضا واجِب ہو جاتی ہے ٭ سَجدۂ شکر اگر چہِ نَفل ہے مگر ا س میں   بھی نیَّت ضَروری ہے مَثَلاً دل میں   یہ نیَّت ہو کہ میں  سَجدۂ شکر کرتی ہوں   ۔  ( رَدُّالْمُحتارج۲ص۱۲۰)  ٭ سَجدۂ سَہْو میں   بھی  ’’ صاحِبِ نَہرُالْفائِق  ‘‘  کے نزدیک نِیّت ضَروری ہے  ( اَیْضاً)  یعنی اُس وقت دل میں   یہ نیَّت ہو کہ میں   سجدۂ سَہْو کرتی ہوں   ۔

  {6}   تکبیرِ تَحریمہ :  یعنی نماز کو  ’’ اَللّٰہُ اَکْبَر ‘‘  کہہ کر شُرُوع کرنا ضَروری ہے ۔  (بہارِ شریعت حصّہ ۳ ص۷۷)

 ’’ بسم اللّٰہ  ‘‘  کے سات حُروف کی نسبت سے نَماز کے 7 فرا ئض

  {1}  تکبیرِتَحریمہ  {2} قِیام  {3}  قِراء ت (قِرا۔ءت)  {4}  رُکُوع   {5}  سُجُود   {6} قَعدۂ اَخِیْرَہ  {7} خُرُوْج بِصُنْعِہٖ۔  ( دُرِّ مُختار،ج ۲، ص ۱۵۸۔۱۷۰،بہارِ شریعت، حصّہ ۳ ص۷۵)

 {1}  تکبیرِ تحریمہ :  دَر حقیقت تکبیرِتَحریمہ  (یعنی تکبیرِ اُولیٰ )  شرائطِ نَماز میں   سے ہے مگرنَماز کے اَفعال سے باِلکل ملی ہوئی ہے اِس لئے ا سے نَماز کے فرائض سے بھی شُمار کیا گیا ہے۔   (غُنیہ،ص۲۵۶) ٭جو اسلامی بہن تکبیر کے تَلَفُّظْ پر قادِر نہ ہومَثَلاًگونگی ہو یا کسی اور وجہ سے زَبان بند ہو گئی ہو اُس پر تَلَفُّظ لازِم نہیں  ، دل میں   اِرادہ کافی ہے۔  (دُرِّ مُختار،ج ۲، ص۲۲۰)  ٭  لفظِ اللّٰہ کو  ’’  اٰللّٰہُ ‘‘ یا اَکْبَرکواٰکْبَر یا   ’’  اَ کبَار  ‘‘ کہا نَماز نہ ہو گی بلکہ اگر ان کے معنی ٔ فاسِدہ سمجھ کر جان بوجھ کر کہے تو کافِر ہے۔  ( دُرِّ مُختار،ج۲،ص۲۱۸ )

 {2}  قِیام : ٭ کمی کی جانب قِیام کی حدیہ ہے کہ ہاتھ بڑھائے تو گُھٹنوں   تک نہ پہنچیں   اورپوراقِیام یہ ہے کہ سیدھی کھڑی ہو ۔  ( دُرِّمُختار، رَدُّالْمُحتارج۲ص۱۶۳ )  ٭  قِیام اتنی دیر تک ہے جتنی دیر تک قراءت ہے۔ بَقَدَرِقراءت فَرض قِیام بھی فَرض، بَقَدَرِ واجِب واجِب، اور بَقَدَرِ سنَّت سنَّت ۔ (اَیضاً) ٭ فرض ،وِترا ور سنّتِ فَجرمیں   قِیام فَرض ہے۔ اگربِلاعُذرِصَحِیح کوئی یہ نَمازیں   بیٹھ کر ادا کرے گی تو نہ ہوں   گی ۔  (اَیْضاً) ٭کھڑی ہونے سے مَحض کچھ تکلیف ہونا عُذْر نہیں   بلکہ قِیام اُس وَقت ساقِط ہوگا کہ کھڑی نہ ہوسکے یاسَجدہ نہ کرسکے یا کھڑی ہونے یاسَجدہ کرنے میں   زَخم بہتاہے یا  سِتْرکھلتاہے یاقراءت سے مجبورِمَحض ہوجاتی ہے ۔ یوہیں   کھڑی ہوسکتی ہے مگر اس سے مَرض میں   زِیادَتی ہوتی ہے یا دیر میں   اچھّی ہوگی یا ناقابلِ برداشت تکلیف ہوگی تو بیٹھ کر پڑھے۔ (غُنیہ،ص۲۶۱۔۲۶۷) ٭اگرعَصا  (یا بیساکھی )  خادِمہ یا دیوار پر ٹیک لگا کر کھڑی ہونا ممکِن ہے تو فرض ہے کہ کھڑی ہو کر پڑھے  (غُنیہ،ص۲۶۱)  ٭ اگر صِرف اِتنا کھڑا ہو نا مُمکِن ہے کہ کھڑے کھڑے تکبیرِ تحریمہ کہہ لے گی تو فرض ہے کہ کھڑی ہو کر اللّٰہُ اکبرکہہ لے اور اب کھڑے رَہنا ممکن نہیں   تو بیٹھ جائے ۔  ( اَیضا ًص ۲۶۲)

ْخبردار! بعض اسلامی بہنیں   معمولی سی تکلیف  ( یا زخم )  کی وجہ سے فرض نَماز یں   بیٹھ کر پڑ ھتی ہیں   وہ اِس حکمِ شَرعی پر غور فرمائیں   ،جتنی نَمازیں   قدرتِ قِیام کے باوُجُوْد بیٹھ کر ادا کی ہوں   ان کو لوٹانا فرض ہے۔ اِسی طرح ویسے ہی کھڑی نہ رَہ سکتی تھیں   مگرعَصا یا دیوار یا خادمہ کے سہارے کھڑےہونا ممکن  تھا مگر بیٹھ کرپڑھتی رہیں   تو ان کی بھی نَمازیں   نہ ہوئیں   ان کا لَوٹانا فرض ہے ۔  ( مُلَخَّص از بہارِ شریعت ،حصہ ۳ص۷۹)

٭ کھڑے ہوکر پڑھنے کی قدرت ہوجب بھی بیٹھ کر نفل پڑھ سکتے ہیں   مگر کھڑے ہوکر پڑھنا افضل ہے کہ حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عَمرورضی اللہ تعالیٰ عنہسے مَروی ہے ، رَحمتِ عالم ،

Index