ہوگی۔ (بہارشریعت حصہ ۴ ص۳۲)
تسبیح انگلیوں پرنہ گنے بلکہ ہوسکے تودل میں شمارکرے ورنہ انگلیاں دباکر۔ (ایضاًص۳۳)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی علٰی محمَّد
حضرتِ سیِّدُنا جابر بن عبداﷲرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ما سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہم کو تمام اُمور میں استخارہ تعلیم فرماتے جیسے قرآن کی سُورت تعلیم فرماتے تھے، فرماتے ہیں : ’’ جب کوئی کسی امر کا قصد کرے تو دو رکعت نفل پڑھے پھر کہے۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ وَاَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ وَاَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ فَاِنَّکَ تَقْدِرُوَلَا اَقْدِرُوَتَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَاَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ اَللّٰھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَخَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ اَوْقَالَ عَاجِلِ اَمْرِیْ وَاٰجِلِہٖ فَاقْدِرْہُ لِیْ وَیَسِّرْہُ لِیْ ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ اَنَّ ھٰذَا الْاَمْرَ شَرٌّ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ اَوْ قَالَ عَاجِلِ اَمْرِیْ وَاٰجِلِہٖ فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ رَضِّنِیْ بِہٖ۔
اے اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ ) میں تیرے علم کے ساتھ تجھ سے خیر طلب کرتا (کرتی) ہوں اور تیری قدرت کے ذریعہ سے طلبِ قدرت کرتا (کرتی) ہوں اورتجھ سے تیرافضل عظیم مانگتا (مانگتی) ہوں کیونکہ توقدرت رکھتا ہے اور میں قدرت نہیں رکھتا (رکھتی ) تو سب کچھ جانتا ہے اورمیں نہیں جانتا (جانتی) اور توتمام پوشیدہ باتوں کو خوب جانتا ہے اے اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ ) اگر تیرے علم میں یہ امر (جس کا میں قصد وارادہ رکھتا (رکھتی) ہوں ) میرے دین و ایمان اور میری زندگی اور میرے انجام کار میں دنیا و آخرت میں میرے لیے بہتر ہے تو اس کو میرے لیے مقدر کردے اور میرے لیے آسان کردے پھر اس میں میرے واسطے برکت کردے ۔اے اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ ) اگرتیرے علم میں یہ کام میرے لیے بُرا ہے میرے دین وایمان میری زندگی اور میرے انجام کار دنیا وآخرت میں تو اس کومجھ سے اور مجھ کو اس سے پھیر دے اور جہاں کہیں بہتری ہو میرے لیے مقدر کرپھر اس سے مجھے راضی کردے۔ (صَحِیحُ البُخارِیّ،ج۱ ص۳۹۳حدیث۱۱۶۲، رَدُّالْمُحتار،ج۲ص۵۶۹)
اَوْ قَالَ عَاجِلِ اَمْرِیْ میں ’’ اَوْ ‘‘ شکِ راوی ہے، فقہا ء فرماتے ہیں کہ جمع کرے یعنی یوں کہے۔ وَعَاقِبَۃِ اَمْرِیْ وَعَاجِلِ اَمْرِی وَاٰجِلِہٖ۔ (غُنْیہ ، ص۴۳۱)
مسئلہ: حج اور جہاد اور دیگر نیک کاموں میں نفسِ فعل کے لیے استخارہ نہیں ہوسکتا، ہاں تعیینِ وقت (یعنی وقت مقرّر کرنے) کے لیے کرسکتے ہیں ۔ (ایضاً)
نمازِ اِستِخارہ میں کون سی سُورَتیں پڑھیں
مُستحب یہ ہے کہ اس دُعا کے اوّل آخر اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اور درود شریف پڑھے اور پہلی رَکعت میں قُلْ یٰاَ یُّھَا الْکَافِرُوْنَ اور دوسری میں قُلْ ھُوَ اللّٰہُپڑھے اور بعض مشائخ فرماتے ہیں کہ پہلی میںوَ رَبُّكَ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ وَ یَخْتَارُؕ-مَا كَانَ لَهُمُ الْخِیَرَةُؕ-سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ (۶۸) وَ رَبُّكَ یَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُهُمْ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ (۶۹) (پ۲۰،القصص: ۶۸،۶۹) اوردوسری میں وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗۤ اَمْرًا اَنْ یَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْؕ-وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ (۳۶) (پ۲۲،الاحزاب: ۳۶) پڑھے۔ (رَدُّالْمُحتَار،ج۲ص۵۷۰)
بہتر یہ ہے کہ سات بار استخارہ کرے کہ ایک حدیث میں ہے: ’’ اے انس! جب تو کسی کام کا قصد کرے تو اپنے ربعَزَّوَجَلَّ سے اس میں سات بار استخارہ کر پھر نظر کر تیرے دل میں کیا گزرا کہ بیشک اُسی میں خیر ہے۔ ‘‘ (ایضاً)
اور بعض مشائخِ کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلامسے منقول ہے کہ دُعائے مذکور پڑھ کر باطہارت قبلہ رُو سو رہے اگر خواب میں سفیدی یا سبزی دیکھے تو وہ کام بہتر ہے اور سیاہی یا سُرخی دیکھے تو بُرا ہے اس سے بچے۔ (ایضاً)
استخارہ کا وقت اس وقت تک ہے کہ ایک طرف رائے پوری جم نہ چکی ہو۔ (بہارشریعت حصہ ۴ص۳۲)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب ! صلَّی اللّٰہُ تعالیٰ علیٰ محمَّد
صَلٰوۃُ الْاَوَّابِیْن کی فضیلت
حضرت ِسیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت، مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت، مَحبوبِ رَبُّ العزت،محسنِ انسانیتصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ جو مغرب کے بعدچھ رکعتیں اس طرح ادا کرے کہ ان کے درمیان کو ئی بری بات نہ کہے تو یہ چھ رکعتیں بارہ سال کی عبادت کے برابر ہوں گی۔ ‘‘ (سنن ابن ماجہ،ج ۲ ص ۴۵حدیث۱۱۶۷)