تعالی علیہنے بلند آواز سے پکارا : ’’ لوگ صبح کے وقت چلنے کو اچھا سمجھتے ہیں ۔ ‘‘ (کتابُ التہجُّد وقیام اللّیل مَع موسُوعَہ امام ابنِ اَبِی الدُّنیا ، ج ۱،ص۲۶۱ رقم۷۲) اللّٰہ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَل کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
مرے غوث کا وسیلہ رہے شاد سب قبیلہ
انہیں خلد میں بسانا مدنی مدینے والے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی علٰی محمَّد
دو فرامَینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ : {۱} جونَمازِ فجر با جماعت ادا کرکے ذکرُاللہ کرتا رہے یہاں تک کہ آفتاب بُلند ہوگیا پھر دو رکعتیں پڑھیں تو اسے پورے حج و عمرہ کاثواب ملیگا۔ (سُنَنُ التِّرْمِذِیّ،ج۲،ص۱۰۰حدیث۵۸۶) {۲} جو شخص نِمازِ فجر سے فارغ ہونے کے بعد اپنے مُصلّے میں ( یعنی جہاں نماز پڑھی وہیں ) بیٹھا رہا حتّٰی کہ اِشراق کے نفل پڑھ لے صرف خیر ہی بولے تو اُس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے اگر چِہ سمندر کے جھاگ سے بھی زیادہ ہوں ۔ (سُنَنُ اَ بِی دَاوٗد ج۲ص۴۱حدیث ۱۲۸۷ )
حدیثِ پاک کے اس حصّے ’’ اپنے مصلّے میں بیٹھا رہے ‘‘ کی وضاحت کرتے ہو ئے حضرتِ سیِّدُنا مُلا علی قاری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الباریفرماتے ہیں : یعنی مسجد یا گھر میں اِس حال میں رہے کہ ذِکر یا غوروفکرکرنے یا علمِ دین سیکھنے سکھانے یا ’’ بیتُ اللہ کے طواف میں مشغول رہے ‘‘ نیز ’’ صرف خیر ہی بولے ‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’ یعنی فجر اور اشراق کے درمیان خیر یعنی بھلائی کے سوا کوئی گفتگو نہ کرے کیونکہ یہ وہ بات ہے جس پر ثواب مُرتَّب ہوتا ہے۔ (مرقاۃج۳ ص۳۹۶ تحت الحدیث۱۳۱۷)
‘‘ نمازِ اِشراق کا وقت: سورَج طُلُوع ہونے کے کم از کم بیس یا پچیس مِنَٹ بعد سے لے کر ضحو ہ ٔکُبریٰ تک نَمازِ اِشراق کا وَقت رہتا ہے۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صلَّی اللّٰہُ تعالیٰ علیٰ محمَّد
حضرتِ سیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حُضُورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ جو چاشت کی دو رَکعتیں پابندی سے اداکرتارہے اس کے گناہ مُعاف کردئیے جاتے ہیں اگر چِہ سمند رکی جھاگ کے برابر ہوں ۔ ‘‘ (سُنَن ابن ماجہ،ج۲ص۱۵۳،۱۵۴حدیث۱۳۸۲)
نَمازِچاشت کاوَقت: اس کاوَقت آفتاب بُلندہونے سے زَوال یعنی نصفُ النَّہار شرعی تک ہے اوربہتریہ ہے کہ چوتھائی دن چڑھے پڑھے۔ (بہار شریعت ، حصہ۴ص۲۵) نمازِ اِشراق کے فوراً بعد بھی چاہیں تو نمازِ چاشت پڑھ سکتے ہیں ۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیْب ! صلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی علٰی محمَّد
اس نماز کا بے انتہا ثواب ہے ،شَہَنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال،دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نَوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمِنہ کے لا ل صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ورَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانے اپنے چچا جان حضرتِ سیِّدُنا عباس رَضِی اﷲُتَعَالٰی عنہ سے فرمایا کہ اے میرے چچا! اگر ہو سکے توصَلٰوۃُ التَّسبِیحہر روز ایک بار پڑھئے اور اگر روزانہ نہ ہو سکے تو ہرجُمُعہ کو ایک بار پڑھ لیجئے اور یہ بھی نہ ہوسکے تو ہر مہینے میں ایک بار اور یہ بھی نہ ہو سکے تو سال میں ایک بار اور یہ بھی نہ ہوسکے تو عمر میں ایک بار۔ (سُنَنُ اَ بِی دَاوٗد ج۲ص۴۴،۴۵حدیث ۱۲۹۷ )
صَلٰوۃُ التَّسْبِیْح پڑھنے کا طریقہ
اِس نَماز کی ترکیب یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد ثنا پڑھے پھر پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھے: ’’ سُبْحٰنَ اﷲِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَر ‘‘ پھر اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِطاور سورۂ فاتحہ اور کوئی سورت پڑھ کر رکوع سے پہلے دس باریہی تسبیح پڑھے پھر رکوع کرے اور رکوع میں سُبْحٰنَ رَبِیَ العَظِیْم تین مرتبہ پڑھ کر پھر دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے پھر رکوع سے سر اٹھائے اور سَمِعَ اللہُ لِمَنْ حَمِدَہ اور اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْد پڑھ کر پھر کھڑے کھڑے دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے پھر سجدہ میں جائے اور تین مرتبہ سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی پڑھ کر پھر دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے پھر سجدہ سے سر اٹھائے اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھ کر دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے پھر دوسرے سجدہ میں جائے اور سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰیتین مرتبہ پڑھے پھر اس کے بعدیہی تسبیح دس مرتبہ پڑھے اسی طرح چار رکعت پڑھے اور خیا ل رہے کہ کھڑے ہونے کی حالت میں سورۂ فاتحہ سے پہلے پندرہ مرتبہ اورباقی سب جگہ یہ تسبیح دس دس بارپڑھے یوں ہر رکعت میں 75 مرتبہ تسبیح پڑھی جائے گی اور چار رکعتوں میں تسبیح کی گنتی تین سو مرتبہ