اسلامی بہنوں کی نماز

(بہار شریعت ، حصہ ۴ ص۳۴)  مشائخِ کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلامفرماتے ہیں  :  کہ ہم نے یہ نَماز پڑھی اور ہماری حاجتیں   پوری ہوئیں  ۔ (ایضاً) حضرتِ سیِّدُناعبداﷲ بن اوفی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حُضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں  :  جس کی کوئی حاجت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہو یا کسی بنی آدم (یعنی انسان)  کی طرف تو اچھی طرح وُضو کرے پھر دو رَکعت نماز پڑھ کر اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ   کی ثنا کرے اورنبی صلَّی اﷲ تَعَالٰی علیہ واٰلہٖ وَسلم پر دُرُود بھیجے پھر یہ پڑھے:  

لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ سُبْحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن اَسْأَ لُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالْغَنِیْمَۃَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَّالسَّلَامَۃَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ لَّا تَدَعْ لِیْ ذَنبًا اِلَّا غَفَرْتَہٗ وَلَا ھَمًّا اِلَّا فَرَّجْتَہٗ وَلَا حَاجَۃً ھِیَ لَکَ رِضًا اِلَّا قَضَیْتَھَا یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ۔ (سُنَنُ التِّرْمِذِیّ،حدیث۴۷۸ج۲ص۲۱)

        ترجمہ:   اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ     کے سوا کوئی معبود نہیں   جو حلیم و کریم ہے، پاک ہے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ     مالک ہے عرشِ عظیم کا، حمد ہے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ       کے لیے جورب ہے تمام جہاں   کا، میں   تجھ سے تیری رحمت کے اسباب مانگتا  (مانگتی ) ہوں   اور طلب کرتا ( کرتی)  ہوں   تیری بخشش کے ذرائع اور ہر نیکی سے غنیمت اور ہر گناہ سے سلامتی کو، میرے لیے کوئی گناہ بغیر مغفرت نہ چھوڑ اور ہر غم کو دور کر دے اور جو حاجت تیری رضا کے موافق ہے اسے پورا کر دے اے سب مہربانوں   سے زیادہ مہربان۔

نابینا کو آنکھیں   مل گئیں 

            حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن حُنیف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ ایک نابینا صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  نے بارگاہ ِرسالت میں   حاضر ہوکر عرض کی: اللّٰہعَزَّوَجَلَّ سے دُعاکیجیے کہ مجھے عافیت دے۔ ارشاد فرمایا:   ’’ اگر تو چاہے تو دُعا کروں   اور چاہے تو صبرکر اور یہ تیرے لیے بہتر ہے۔ ‘‘  انہوں   نے عرض کی : حضور!دعا فرمادیجئے۔ انھیں   حکم فرمایا:  کہ وضو کرو اوراچھا وضو کرو اور دو رَکعت نَماز پڑھ کر یہ دُعا پڑھو:  

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ وَاَ تَوَسَّلُ وَاَ تَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍ نَّبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ    ([1])  اِنِّیْ تَوَجَّھْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ ھٰذِہٖ لِتُقْضٰی لِیْ اَللّٰھُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ

ترجمہ: ا ے اللّٰہ عَزَّوَجَلّ ! میں   تجھ سے سوال کرتا ہوں   اور توسل کرتا ہوں   اور تیری طرف مُتَوَجِّہ ہوتا ہوں   تیرے نبی محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے  ذَرِیعے سے جو نبیِّ رحمت ہیں   ۔یا رسولَ اللہ ! (عَزَّوَجَلَّ  و صلی اللہ تعالٰی عَلیْہِ واٰلہ وسَلم)  میں   حضورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ذَرِیعے سے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ  کی طرف اِس حاجت کے بارے میں   مُتَوَجِّہ ہوتا ہوں  ، تاکہ میری حاجت پوری ہو۔  ’’ الٰہی! ان کی شفاعت میرے حق میں   قبول فرما۔ ‘‘  

            سیِّدُناعثمان بن حُنیَف رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  :   ’’ خدا کی قسم! ہم اٹھنے بھی نہ پائے تھے، باتیں   ہی کر رہے تھے کہ وہ ہمارے پاس آئے، گویا کبھی اندھے تھے ہی نہیں  ۔ ‘‘   (سنن ابن ماجہ،ج۲ ص۱۵۶حدیث ۱۳۸۵،سنن الترمذي، ص۳۳۶ ج۵حدیث ۳۵۸۹،المعجم الکبیر، ج۹ص۳۰حدیث۸۳۱۱،بہارشریعت،حصہ ۴ص۳۴ )

        اسلامی بہنو!  شیطان جو یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ صرف ’’  یا اللّٰہ ‘‘  کہنا چاہئے  ’’  یارسول اللہ  ‘‘ نہیں   کہناچاہئے ،اَلْحَمْدُ لِلّٰہعَزَّوَجَلَّ  اِس حدیثِ مبارک نے شیطان کے اس انتہائی خطرناک وسوسے کو بھی جڑ سے اُکھاڑ دیا کہ اگر  ’’  یارسولَ اللہ  ‘‘  کہنا جائز نہ ہوتا تو خود ہمارے پیارے آقا مدینے والے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  اِس کی کیوں   تعلیم دیتے؟ بس جھوم جھوم کر  ’’  یارسولَ اللہ  ‘‘  کے نعرے لگاتے جائیے۔

یارسول اللہ کے نعرے سے ہم کو پیار ہے

جس نے یہ نعرہ لگایا اُس کا بیڑا پار ہے

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                       صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

گَہَن کی نَماز

            حضرتِ سیِّدُنا ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مَروی کہ شَہَنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال،، دافِعِ رنج و مَلال، صاحِب ِجُودو نوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ورَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے عَہدِ کریم  (یعنی مبارک زمانے )  میں   ایک مرتبہ آفتاب میں  گَہَن لگا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجِد میں   تشریف لائے اوربَہُت طویل قِیام و رُکوع و سجود کے ساتھ نَماز پڑھی کہ میں   نے کبھی ایسا کرتے نہ دیکھا اور یہ فرمایا کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ   کسی کی موت و حیات کے



[1]    حدیثِ پاک میں اس جگہ ’’یا محمد‘‘ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ) ہے۔ مگر مجدِّدِ اعظم، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃ الرحمن نے ’’یا محمد‘‘ (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ) کہنے کے بجائے، یا رسولَ اﷲ (عزوجل و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ) کہنے کی تعلیم دی ہے۔

Index