آہِستہ پڑھنے میں بھی یہ ضَروری ہے کہ خود سُن لے۔ (اَیضاً) ٭ اگر حُرُوف تو صحیح ادا کئے مگر اتنے آہِستہ کہ خود نہ سنا اور کوئی رُکاوٹ مَثَلاً شوروغُل یا ثِقْلِ سَماعت ( یعنی بہراپَن یا اُونچا سننے کا مرض ) بھی نہیں تو نَماز نہ ہوئی ۔ (اَیضاً) ٭ اگرچِہ خود سننا ضَروری ہے مگر یہ بھی اِحتِیاط رہے کہ سِرّی (یعنی آہِستہ قراء ت والی) نَمازوں میں قراءت کی آواز دوسروں تک نہ پہنچے ،اِسی طرح تَسبِیحات وغیرہ میں بھی خیال رکھئے ٭ نَماز کے عِلاوہ بھی جہاں کچھ کہنا یاپڑھنا مقرَّر کیا ہے اِس سے بھی یِہی مراد ہے کہ کم از کم اِتنی آواز ہو کہ خود سن سکے مَثَلاً جانور ذَبح کرنے کے لئے اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کا نام لینے میں اِتنی آوازضَروری ہے کہ خود سن سکے ۔ (اَیضاً) دُرُود شریف وغیرہ اَوراد پڑھتے ہوئے بھی کم ازکم اتنی آواز ہونی چاہئے کہ خُود سُن سکے جبھی پڑھنا کہلائے گا٭ مُطلَقاً ایک آیت پڑھنا فَرض کی دو رَکعَتوں میں اور وِتْر، سُنَن اور نوافِل کی ہر رَکعت میں امام و مُنفَرِد (یعنی تنہانَماز پڑھنے والے) پر فرض ہے۔ (مَرَاقِی الْفَلَاح ص ۲۲۶) ٭ فرض کی کسی رَکعت میں قراءت نہ کی یافَقَط ایک میں کی نَماز فاسِد ہو گئی۔ (عالمگیری، ج۱ ص۶۹) ٭فرضوں میں ٹھہر ٹھہر کر قِراء ت کرے اور تراویح میں مُتَوسِّط (یعنی درمیانہ) انداز پر اور رات کے نوافِل میں جلد پڑھنے کی اجازت ہے مگر ایسا پڑھے کہ سمجھ میں آسکے یعنی کم سے کم مَد کا جو دَرَجہ قارِیوں نے رکھاہے اُس کو ادا کرے ورنہ حرام ہے، اس لئے کہ تَرتِیل سے ( یعنی ٹھہر ٹھہرکر) قرآن پڑھنے کا حکم ہے۔ ( دُرِّمُختار، رَدُّالْمُحتار ج ۲ ص ۳۲۰)
حُرُوف کی صحیح ادائیگی ضَروری ہے
اکثر لوگ ’’ ط ت ‘س ص ث ‘ا ء ع ‘ ہ ح اورض ذ ظ ‘‘ میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ یاد رکھئے ! حُرُوف بدل جانے سے اگر معنیٰ فاسِد ہو گئے تونَماز نہ ہو گی ۔ ( بہارِشریعت ،حصّہ
۳ ص۱۲۵) مَثَلاً جس نے ’’ سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْعَظِیْم ‘‘ میں ’’ عظیم ‘‘ کو ’’ عَزِیْم ‘‘ (ظ کے بجائے ز) پڑھ دیا نَماز جاتی رہی لہٰذا جس سے ’’ عظیم ‘‘ صحیح ادا نہ ہووہ ’’ سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْکَرِیْم ‘‘ پڑھے ۔ ( قانونِ شریعت ،حصہ اول ،ص۱۰۵، رَدُّالْمُحتار ج ۲ ص ۲۴۲ )
جس سے حُروف صحیح اد ا نہیں ہوتے اُس کے لئے تھوڑی دیر مَشْق کر لینا کافی نہیں بلکہ لازِم ہے کہ انہیں سیکھنے کے لئے رات دن پوری کوشش کرے اور وہ آیتیں پڑھے جس کے حُرُوف صحیح ادا کر سکتی ہو ۔ اور یہ صورَت نا ممکن ہو تو زَمانۂِ کوشِش میں اس کی نَماز ہو جائے گی ۔ آج کل کافی لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں کہ نہ انہیں قرآن صحیح پڑھنا آتا ہے نہ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یاد رکھئے!اِس طرح نَمازیں بر باد ہوتی ہیں ۔ ( بہارِ شریعت ، حصہ ۳ ص ۱۳۸ ، ۱۳۹ مُلَخَّصاً) جس نے رات دن کوشِش کی مگر سیکھنے میں ناکام رہی جیسے بعض اسلامی بہنوں سے صحیح حُروف ادا ہوتے ہی نہیں اس کے لئے لازِمی ہے کہ رات دن سیکھنے کی کوشِش کرے اور زمانۂِ کوشِش میں وہ معذور ہے اِس کی نَماز ہو جائے گی۔ (ماخوذ از فتاوٰی رضویہ ج۶ص۲۵۴)
اسلا می بہنو ! آپ نےقراءت کی اَہَمِّیَّت کا بخوبی اندازہ لگا لیا ہو گا ۔ واقِعی وہ مسلمان بڑے بد نصیب ہیں جو دُرُست قرآن شریف پڑھنا نہیں سیکھتے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہعَزَّوَجَلَّ تبلیغِ قرآن و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعو تِ اسلا می کے بے شُمار مدارِس بناممَدرَسۃُالمد ینہ قائم ہیں اِن میں مَدَنی مُنّوں اورمَدَنی مُنّیوں کو قراٰنِ پاک حِفظ و ناظِرہ کی مُفت تعلیم دیجاتی ہے ۔نیز بالِغات کو حُروف کی صحیح ادائیگی کے ساتھ ساتھ سنّتوں کی تربیّت بھی دی جاتی ہے ۔ کاش!تعلیمِ قرآن کی گھر گھر دھوم پڑجائے ۔ کاش ! ہر وہ اِسلامی بہن جو صحیح قرآن شریف پڑھنا جانتی ہے وہ دوسری اسلامی بہن کو سکھانا شُروع کر دے ۔ اِن شاءَاللّٰہعَزَّوَجَلَّ پھر تو ہر طرف تعلیمِ قرآن کی بہار آجائے گی اور سیکھنے سکھانے والوں کیلئے اِن شاءَاللّٰہعَزَّوَجَلَّ ثواب کا اَنبار لگ جائے گا ۔
یِہی ہے آرزو تعلیمِ قرآں عام ہوجائے
تِلاوت شوق سے کرنا ہمارا کام ہوجائے
{4} رُکُوع: رُکو ع میں تھوڑاجُھکئے یعنی اتنا کہ گُھٹنوں پر ہا تھ رکھ دیجئے زَورنہ دیجئے اورگُھٹنوں کو نہ پکڑ یئے اور اُنگلیا ں ملی ہوئی اور پا ؤ ں جُھکے ہو ئے رکھئے اسلامی بھائیوں کی طرح خو ب سیدھے نہ کر یں ۔ (عالمگیری ج۱ص۷۴وغیرہ)
{5} سُجُود: ٭سلطانِ مکّۂ مکرَّمہ ،تاجدارِ مدینۂ منوّرہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عظمت نشان ہے : مجھے حکم ہوا کہ سات ہڈِّیوں پر سجدہ کروں ، مُنہ اور دو۲نوں ہاتھ اور دو۲نوں گُھٹنے اور دونوں پنجے اور یہ حکم ہوا کہ کپڑے اور بال نہ سمیٹوں ۔ (صَحِیح مُسلِم ص ۲۵۳حدیث۴۹۰) ٭ہررَکعت میں دوبارسجدہ فَرض ہے۔ (