سرکارِمدینۂ منوّرہ،سردارِمکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ کوئی غُسل خانہ میں پیشاب نہ کرے، پھر اس میں نہائے یا وُضو کرے کہ اکثر وَسوسے اس سے ہوتے ہیں ۔ (سُنَنُ اَ بِی دَاوٗد،ج۱ص۴۴ حدیث ۲۷) مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : اگر غسل خانے کی زمین پختہ ہو ،اور اس میں پانی خارِج ہونے کی نالی بھی ہو تو وہاں پیشاب کرنے میں حَرَج نہیں اگر چِہ بہتر ہے کہ نہ کرے، لیکن اگر زمین کچّی ہو، اور پانی نکلنے کا راستہ بھی نہ ہو تو پیشاب کرنا سخت بُرا ہے کہ زمین نَجس ہو جائے گی ، اور غسل یا وُضُو میں گندا پانی جسم پر پڑے گا۔ یہاں دوسری صورت ہی مُراد ہے اِس لیے تاکیدی مُمانَعَت فرمائی گئی ، یعنی اس سے وَسوسوں اور وَہم کی بیماری پیدا ہوتی ہے جیسا کہ تجرِبہ ہے یا گندی چِھینٹیں پڑنے کا وَسوَسہ رہے گا۔ ( مراٰۃ ج ۱ ص ۲۶۶)
{1} آگے پیچھے سے جب نَجاست نکلے تو ڈھیلوں سے استِنجا (اِس۔تِن۔جا) کرنا سنّت ہے ، اور اگر صِرف پانی ہی سے طہارت کر لی تو بھی جائز ہے ، مگرمُستَحَب یہ کہ ڈھیلے لینے کے بعد پانی سے طَہارت کرے۔ فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ جلد 4 صَفْحَہ 598 پر ہے: سُوال: عورت بعد پیشاب کلوخ ( یعنی ڈھیلا) لے یا صِرف پانی سے استِنجا کرے؟ جواب: دونوں کا جمع کرنا افضل ہے اور اس کے حق میں کُلُوخ (یعنی ڈھیلے) سے کپڑا بہتر ہے {2} آگے اور پیچھے سے پیشاب ،پاخانہ کے سوا کوئی اَور نَجاست ، مَثَلاًخون، پیپ وغیرہ نکلے، یا اس جگہ خارِج سے نَجاست لگ جائے توبھی ڈَھیلے سے صاف کر لینے سے طہارت ہو جائے گی، جب کہ اس مَوضع (یعنی جگہ ) سے باہَر نہ ہو مگر دھو ڈالنامُستَحَب ہے {3} ڈَھیلوں کی کوئی تعداد مُعَیَّن (یعنی مقرَّرہ تعداد) سنّت نہیں ، بلکہ جتنے سے صفائی ہو جائے، تو اگر ایک سے صفائی ہو گئی سنّت ادا ہوگئی اور اگر تین ڈَھیلے لیے اور صفائی نہ ہوئی سنّت ادا نہ ہوئی، البتّہمُستَحَب یہ ہے کہ طاق (مَثَلاً ایک،تین ،پانچ ) ہوں اور کم سے کم تین ہوں تو اگر ایک یا دو سے صفائی ہو گئی تو تین کی گنتی پوری کرے، اور اگر چار سے صفائی ہو توایک اور لے، کہ طاق ہو جائیں ۔ {4} ڈَھیلوں سے طہارت اُس وَقت ہو گی کہ نَجاست سے مَخرج (یعنی خارج ہونے کی جگہ ) کے آس پاس کی جگہ ایک دِرَہم ([1]) سے زِیادہ آلودہ نہ ہو اور اگر دِرَہم سے زِیادہ سَن جائے تودھونا فرض ہے ،مگر ڈَھیلے لینا اب بھی سنّت رہے گا {5} کنکر، پتھر، پھٹا ہوا کپڑا ، (پھٹا ہوا کپڑا یا درزی کی بے قیمت کترن بہتر یہ ہے کہ سوتی (COTTON) ہوتاکہ جلد جذب کر لے ) یہ سب ڈَھیلے کے حکم میں ہیں ،ان سے بھی صاف کر لینا بلا کراہت جائز ہے {6} ہڈّی اور کھانے اور گوبر اور پکّی اینٹ اور ٹھیکری اور شیشہ اور کوئلے اور جانور کے چارے سے اور ایسی چیز سے جس کی کچھ قیمت ہو، اگرچِہ ایک آدھ پیسہ سہی ،ان چیزوں سے اِستِنجا کرنا مکروہ ہے۔ {7} کاغذ سے اِستِنجا منع ہے ، اگرچِہ اُس پر کچھ لکھا نہ ہو، یا ابو جہل ایسے کافِر کا نام لکھا ہو {8} .8داہنے.8 (یعنی سیدھے) .8 ہاتھ سے اِستِنجا.8کرنا مکروہ ہے، اگر کسی کا بایاں ہاتھ بیکار ہو گیا، تو .8اسے دہنے .8 ( سیدھے.8 .8) .8 .8ہاتھ سے جائز ہے {9} جس ڈَھیلے سے ایک باراِستِنجاکر لیا اسے دوبارہ کام میں لانا مکروہ ہے، مگر دوسری کروٹ اس کی صاف ہو تو اس سے کر سکتے ہیں ۔ {10} عورت کے لئے طریقہ یہ ہے کہ پہلا ڈھیلا آگے سے پیچھے کو لے جائے، اور دوسرا پیچھے سے آگے کی طرف ، اور تیسرا آگے سے پیچھے کو {11} پاک ڈھیلے داہنی.8 ( سیدھی ) جانب رکھنا اور بعدکام میں لانے کے، بائیں .8 (الٹے ہاتھ کی ) طرف ڈال دینا، اس طرح پر کہ جس رُخ میں نَجاست لگی ہو نیچے ہو،مُستَحَب ہے۔ (بہارِ شریعتحصّہ ۲ ص ۱۳۲ ،۱۳۴ ،عالمگیری ج۱ ص ۴۸۔۵۰ ) {12} ٹائلٹ پَیپر کے استِعمال کی عُلَماء نے اجازت دی ہے کیوں کہ یہ اِسی مقصد کیلئے بنایا گیا ہے اور لکھنے میں کام نہیں آتا۔ البتّہ بہتر مِٹّی کا ڈَھیلا ہے۔
مِٹّی کا ڈھیلا اور سائنسی تحقیق
ایک تحقیق کے مطابِق مِٹّی میں نَوشادَر ( AMMONIUM CHLORIDE) نیز بدبُودُور کرنے والے بہترین اَجزا موجود ہیں ۔ پیشاب اور فُضلہ جَراثیم سے لبریز ہوتا ہے ، اِس کا جسمِ انسانی پر لگنا نقصان دِہ ہے ۔ اِس کے اَجزا بدن پرچپکے رَہ جا نے کی صورت میں طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہونے کا اندیشہ ہے ۔ ’’ ڈاکٹر ہلوک ‘‘ لکھتا ہے: اِستِنجا کے مِٹّی کے ڈَھیلے نے سائنسی دنیا کو وَرطۂ حیرت میں ڈال رکھا ہے ۔ مِٹّی کے تمام اَجزاء جراثیم کے قاتل ہوتے ہیں لہٰذا مِٹّی کے ڈَھیلے کے استِعمال سے پردے کی جگہ پر موجود جراثیم کا خاتِمہ ہو جاتا ہے بلکہ اِس کا استِعمال ’’ پردے کی جگہ کے کینسر ‘‘ (CANCER OF PENIS) سے بچاتا ہے۔
اسلامی بہنو! سنّت کے مطابق قضائے حاجت کرنے میں آخِرت کی سعادت اور دنیا میں بیماریوں سے حفاظت ہے۔ کفّار بھی اسلامی اطوار کا خواہی نہ خواہی اقرار کر ہی لیتے ہیں ۔ اِس کی جھلک اِس حکایت میں مُلاحَظہ فرمایئے: چنانچِہ فِزیالوجی کے ایک سینئر پروفیسر کا بیان ہے : میں اُن دنوں مراکش میں تھا، مجھے بخار آگیا ، دوا