اسلامی بہنوں کی نماز

کپڑوں   کا رَواج بڑھتا جارہا ہے ، ایساکپڑا پہننا جس سے سِتْرِعورت  نہ ہو سکے عِلاوہ نَماز کے بھی حرام ہے۔ (بہا رِشریعت،حصّہ ۳ص ۴۸ )  ٭دَبِیز   (یعنی موٹا)  کپڑا جس سے بدن کا رنگ نہ چمکتا ہو مگر بدن سے ایسا چِپکا ہوا ہو کہ دیکھنے سے عُضْو کی ہَیئَت (ہَے۔اَتْ یعنی شکل و صورت اور گولائی وغیرہ)  معلوم ہوتی ہو۔ایسے کپڑے سے اگر چہِ نَماز ہو جائیگی مگراُس عُضْوکی طرف دوسروں  کو نگاہ کرنا جائز نہیں   ۔  (رَدُّالْمُحتارج ۲ ص۱۰۳)  ایسا لِباس لوگوں   کے سامنے پہننا مَنع ہے اور عورَتوں   کے لئے بدرَجَۂ اولیٰ مُمانَعَت۔  (بہارِشریعت حصّہ ۳ص۴۸) ٭بعض اسلامی بہنیں  مَلمَل وغیرہ کی باریک چادَرنَماز میں   اَوڑھتی ہیں   جس سے بالوں   کی سیاہی (کالک)  چمکتی ہے یا ایسا لباس پہنتی ہیں   جس سے اَعضاء کا رنگ نظر آتا ہے ایسے لباس میں   بھی نَماز نہیں   ہوتی۔

  {3}  اِستِقبالِ قِبلہیعنی نَماز میں  قِبلہ ( کعبہ)  کی طرف مُنہ کرنا٭ نَمازی نے بِلا عُذرِشَرعی جان بوجھ کر قِبلہ سے سینہ پھیر دیا اگرچِہ فوراً ہی قِبلہ کی طرف ہو گئی نَماز فاسِد ہو گئی (یعنی ٹوٹ گئی)  اور اگر بِلا قَصد (یعنی بِلا ارادہ) پھر گئی اور بَقَدَر تین بار  ’’ سُبْحٰنَ اللّٰہ ‘‘ کہنے کے وَقفے سے پہلے واپَس قِبلہ رُخ ہو گئی تو فاسِد نہ ہوئی  (یعنی نہ ٹوٹی )   (مُنیۃ المصلی ص۱۹۳البحرالرائق ج۱ ص۴۹۷) ٭اگر صِرف مُنہ قِبلے سے پھر ا تو واجِب ہے کہ فوراً قِبلے کی طرف منہ کر لے اورنَماز نہ جائے گی مگر بِلا عُذر  (یعنی بِغیر مجبوری کے)  ایسا کرنا مکروہ ِتَحریمی ہے (المرجع السّابِق) ٭اگر ایسی جگہ پر ہیں   جہاں   قبلے کی شَناخت  (یعنی پہچان)  کا کوئی ذَرِیعہ نہیں   ہے نہ کوئی ایسا مسلمان ہے جس سے پوچھ کر معلوم کیا جاسکے توتَحَرِّی ( تَ۔حَر۔رِی)  کیجئے یعنی سوچئے اور جِدھر قِبلہ ہو نا دِل پر جَمے اُدھر ہی رُخ کر لیجئے آپ کے حق میں   وُہی قِبلہ ہے۔ ( دُرِّمُختار، رَدُّالْمُحتار ج ۲ ص ۱۴۳ دارالمعرفۃ بیروت)  ٭ تَحَرِّی کر کے نَماز پڑھی بعد میں   معلوم ہوا کہ قِبلے کی طرف نَماز نہیں   پڑھی ، نَماز ہو گئی لوٹانے کی حاجت نہیں  ۔  ( تَنْوِیرُ الْاَبْصَار ج ۲ ص ۱۴۳)  

٭ ایک اسلامی بہن تَحَرِّی کر کے  (سوچ کر)  نَماز پڑھ رہی ہو دوسری ا س کی دیکھا دیکھی اُسی سَمت نَماز پڑھے گی تو نہیں   ہو گی دوسری کے لئے بھی  تَحَرِّی کر نے کا حکم ہے ۔  (رَدُّالْمُحتار،ج۲،ص۱۴۳)

   {4}  وَ قت: یعنی جونَماز پڑھنی ہے اُس کا وَقت ہونا ضَروری ہے۔مَثَلاً آج کی نمازِ عصر ادا کرنی ہے تو یہ ضَروری ہے کہ عَصر کا وَقت شُرُوع ہو جائے اگر وَقتِ عصر شُرُوع ہونے سے پہلے ہی پڑھ لی تونَماز نہ ہو گی۔ ٭ نِظامُ الاوقات کے نقشے عُمُوماً مل جاتے ہیں   ان میں   جومُستند تَوقِیت داں    (تَوْ۔ قِیْت۔ دَاں   یعنی وقت کا علم رکھنے کے ماہر) کے مُرتَّب کردہ اور عُلَمائے اہلِسنّت کے مُصَدَّقہ (تصدیق شدہ )  ہوں   ان سے نَمازوں   کے اَوقات معلوم کرنے میں   سَہولت رَہتی ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّدعوت اسلامی کی ویب سائٹ (WWW.DAWATEISLAMI.NET) پر تقریباً دنیا بھر کے مسلمانوں   کے لئے نَمازوں   اور سحر و افطار کا نظام الاوقات موجود ہے۔ ٭اسلا می بہنوں   کے لئے اوّل وَقت میں  نَمازِ فجر ادا کرنا مُسْتَحَبہے اور باقی نَمازوں   میں   بہتر یہ ہے کہ اسلامی بھائیوں   کی جماعت کا انتِظار کریں   جب جماعت ہوچکے پھر پڑھیں۔ ( دُرِّمُختار، ج۲،ص۳۰)

تیناَو قاتِ مَکرُو ہَہ:   (۱)  طُلُوعِ آفتاب سے لے کر کم از کم بیس مِنَٹ بعد تک  (۲)   غُرُوبِ آفتاب سے کم از کم بیس مِنَٹ پہلے (۳)   نِصفُ النَّہار یعنی  ضَحوَۂ  کُبریٰ سے لے کر زَوالِ آفتاب تک۔ ان تینوں   اَوقات میں   کوئی نَماز جائز نہیں   نہ فرض نہ واجِب نہ نَفْل نہ قَضا ۔ ہاں   اگر اِس دن کی نَمازِعَصر نہیں   پڑھی تھی اور مَکرُوہ وقت شُروع ہو گیا تو پڑھ لے البتَّہ اتنی تاخیر کرنا حرام ہے ۔         (عالمگیری ج ۱ص۵۲، دُرِّمُختار، رَدُّالْمُحتارج۲ص۳۷،بہارِ شریعت حصّہ ۳ ص۲۲)

نَمازِ عَصر کے دَوران مکروہ وَقت آجائے تو؟

            غُروبِ آفتاب سے کم سے کم 20مِنَٹ قبل نَمازِ عصر کا سلام پھرجانا چاہئے جیسا کہ میرے آقا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃُ الرحمٰن فرماتے ہیں   :  ’’ نَمازِ عصر میں   جتنی تاخیر ہو افضل ہے جبکہ وقتِ کراہت سے پہلے پہلے خَتم ہوجائے ۔  ‘‘   (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّ جہ ج۵ص ۱۵۶)  پھراگراس نے احتیاط کی اور نماز میں   تَطوِیل (تَط۔وِیْل)  کی  (یعنی طول دیا) کہ وقتِ کراہَت وسطِ (یعنی دورانِ)  نَماز میں   آگیاجب بھی اس پر اِعتِراض نہیں  ۔  (ایضاًص ۱۳۹ )

  {5}  نیّت: نیّت دل کے پکّے ارادے کا نام ہے۔ ( تَنْوِیرُ الْاَبْصَارج۲ ص۱۱۱)   ٭زَبان سے نیَّت کرنا ضَروری نہیں   البتَّہ دل میں    نیَّت حاضِر ہوتے ہوئے زَبان سے کہہ لینا بہتر ہے ۔ (فتاوٰی عالمگیری ج۱ص۶۵)  عَرَبی میں   کہنا بھی ضَروری نہیں   اُردُو وغیرہ کسی بھی زَبان میں   کہہ سکتے ہیں   ۔ ( ملخص ازدُرِّ مُختار،ج ۲، ص ۱۱۳)  ٭