پردے کے بارے میں سوال جواب

آدمی گھر میں   آتے ہوئے ڈریگا اور یہ(یعنی بیان کردہ رشتے دار) آپس کے مَیل جُول ( اور جان پہچان)کے باعِث خوف نہیں   رکھتے  ۔  عورت نِرے اجنبی(یعنی مُطلَقاً نا واقِف ) شخص سے  دَفْعَۃً(فوراً) مَیل نہیں   کھا سکتی (یعنی بے تکلُّف نہیں   ہو سکتی ) اور اُن (یعنی مذکورہ رشتہ داروں  ) سے لحاظ ٹوٹا ہوتا ہے ( یعنی جھجک اُڑی ہوئی ہوتی ہے ) وَلہٰذاجب رسولُ اللہ عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے غَیر عَورَتوں   کے پاس جانے کو مَنْع فرمایا (تو) ایک صَحابی انصاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کی، یارسولَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   جَیٹھ دَیْوَرکے لئے کیا حُکم ہے ؟ فرمایا :  ’’جَیٹھ دَیْوَر تو موت ہیں   ۔ ‘‘ (فتاوٰی رضویہ   ج۲۲  ص ۲۱۷ )

سُسرال میں   کس طرح پردہ کرے ؟

سُوال : سُسرال میں   دَیْوَرو جَیٹھ وغیرہ سے کس طرح پردہ کیا جائے ؟ سارا دن پردہ میں   رَہنا بَہُت دُشوار ، گھر کے کام کاج کرتے وَقت کیسے اپنے چِہرہ کوچُھپائے ؟

جواب :  گھر میں   رَہتے ہوئے بھی بِالخصوص دَیْوَر وجَیٹھ وغیرہ کے مُعامَلہ میں  مُحتاط رَہنا ہوگا ۔  صحیح بخاری میں    حضرت سیّدُنا عُقْبہ بن عامِر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ، پیکرِ شرم وحیا، مکّی مَدَنی مصطَفٰے ، محبوبِ خدا  عَزَّ وَجَلَّ  و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے فرمایا ، ’’ عورَتو ں   کے  پاس جانے سے بچو ۔ ‘‘ ایک شخص نے عرض کی، یارسولَ اللّٰہ    عَزَّ وَجَلَّ وصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    د َیْوَرکے مُتَعَلِّق کیا حکم ہے ؟ فرمایا : ’’دَیْوَر موت ہے  ۔  ‘‘(بخاری ج۳ص۴۷۲ حدیث ۵۲۳۲ ) دَیوَر کا اپنی بھابھی کے سامنے ہونا گویا موت کاسامنا ہے کہ یہاں   فِتنہ کا اندیشہ زِیادہ ہے  ۔  مفتیٔ اعظم پاکستا ن حضرتِ وقارِ مِلّت مولانا   وقارُ الدّین  عَلَیْہِ رَحْمَۃُاللہِ المُبِیْنفرماتے ہیں  : ’’ان رشتہ داروں   سے جو نامَحرم ہیں  ، چہرہ، ہتھیلی، گٹے ، قدم اورٹَخنوں   کے علاوہ سِتْر( پردہ )  کرنا ضَروری ہے ، زینت بناؤ سنگھار بھی ان کے سامنے ظاہِر نہ کیا جائے  ۔  ‘‘ (وقا ر الفتاوٰی ج۳ ص ۱۵۱)

            منقول ہے :  ’’جو شخصشہوت سے کسی اَجْنَبِیَّہ کے حُسن وجمال کو دیکھے گا قیامت کے دن اسکی آنکھوں   میں   سیسہ پگھلا کر ڈالاجائے گا ۔ ‘‘( ھِدایہ، ج۴ ص۳۶۸ ) یقیناً بھابھی بھی اَجنَبِیّہ ہی ہے  ۔  جو دَیْوَر و جیٹھ اپنی بھابھی کو قصداً  شہوت کے ساتھ دیکھتے رہے ہوں  ، بے تکلُّف بنے رہے ہوں   ، مذاق مسخری کرتے رہے ہوں، وہ   اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کے عذاب سے ڈر کر فوراً سے  پیشتر سچّی توبہ کر لیں    ۔ بھابھی اگر دَیْوَر کو چھوٹا بھائی اور جیٹھ کو بڑا بھائی کہدے اِس سے بے پردَگی اور بے تکلُّفی جائز نہیں   ہو جاتی بلکہ یہ اندازِ گفتگو بھی فاصِلے دُورکر کے قریب لاتا ہے اور دَیْوَرو بھابھی بد نِگاہی، بے تکلُّفی، ہنسی مذاق وغیرہ گناہوں  کے دَلدَل میں   مزید دھنستے چلے جاتے ہیں   ۔ حالانکہ جَیٹھ اوردَیوَر وبھابھی کا آپس میں   گفتگو کرنا بھی مُسلسل خطرہ کی گھنٹی بجاتا رہتا ہے !  

اللہ  عَزَّ وَجَلَّ  کرے دل میں   اُتر جائے مری بات

            دَیْوَر وجَیٹھ اور بھابھی وغیرہ خبردار رہیں   کہ حدیث شریف میں   ارشاد ہوا ، ’’ اَلْعَیْنَانِ تَزْنِیَان‘‘  یعنی آنکھیں   زِنا کرتی ہیں    ۔  (مُسنَد اِمام احمد ج۳ ص ۳۰۵حدیث ۸۸۵۲ ) بَہَرحال اگر ایک گھر میں   رَہتے ہوئے عورت کیلئے قریبی نامَحرم رشتہ داروں   سے پردہ  دشوارہو تو چہرہ کھولنے کی تو اجازت ہے مگر کپڑے ہرگز ایسے باریک نہ ہوں   جن سے بدن یا سر کے بال وغیرہ چمکیں  یاایسے چُست نہ ہوں   کہ بدن کے اعضاء جسم کی ہَیْئَت(یعنی صورت و گولائی)اور سینے کا اُبھار وغیرہ ظاہِر ہو  ۔

 پردہ دار کے لئے آزمائشیں 

سُوال :   آج کل پردہ کرنے والیوں  کا ’’مُلانی‘‘ کہہ کر گھر میں  مذاق اُڑایا جاتا ہے ، کبھی عورَتوں   کی کسی تقریب میں   مَدَنی بُرقع اوڑھ کر چلی جائے تو کوئی کہتی ہے ، ارے ! یہ کیا اَوڑھ رکھا ہے اُتارواِس کو! کوئی بولتی ہے ، بس ہمیں   معلوم ہو گیا کہ تم بَہُت پردہ دار ہو اب چھوڑو بھی یہ پردہ وَردہ ! کوئی کہتی ہے ، دنیابَہُت ترقّی کر چکی ہے اور تم نے کیا یہ دَقْیا نُوسی انداز اپنا رکھا ہے ! وغیرہ  ۔  اِسطرح کی دل دُکھانے والی باتوں   سے شَرعی پردہ کرنے والی کا دل ٹوٹ پھوٹ کر چِکناچُور ہو جاتا ہے  ۔  ان حالات میں   اُسے کیا کرنا چاہیے ؟

جواب :  واقِعی نہایت ہی نازُک حالات ہیں   ، شَرعی پردہ کرنے والی اسلامی بَہن سخت آزمائش میں  مُبتَلا رَہتی ہے مگر ہمّت نہیں   ہارنی چاہیے  ۔  مذاق اُڑانے یا اِعتِراض کرنے والیوں   سے زور دار بحث شُروع کر دینا یا غصّے میں   آ کر لڑ پڑناسخت نقصان دِہ ہے کہ اس طرح مسئلہ ( مَسْ ۔ ءَ ۔ لہ)حل ہونے کے بجائے مزیداُلَجھ سکتا ہے  ۔ ایسے مَوقَع پر یہ یاد کر کے اپنے دل کو تسلّی دینی چاہیے کہ جب تک تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    نے عام اِعلانِ نُبُوَّت نہیں   فرمایا تھا اُس وَقت تک کُفّارِ بد انجام آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو اِحتِرام کی نظر سے  دیکھتے تھے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کو امین اور صادِق کے لقب سے یاد کرتے تھے  ۔  آپ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے جُوں   ہی علَی الْاِعلان اسلام کا ڈنکا بجانا شروع کیا وُہی کُفّار ِ بداطوار طرح طرح سے ستانے ، مذاق اُڑانے اور گالیاں   سنانے لگے ، صِرف یہی نہیں  بلکہ جان کے در پے ہو گئے ، مگر قربان جائیے ! سرکارِ نامدار ، اُمّت کے غم خوار  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  پر کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     نے بِالکل ہمّت نہ ہاری ، ہمیشہ صَبْر ہی سے کام لیا  ۔ اب اسلامی بہن صَبْرکرتے ہوئے غور کرے کہ میں   جب تک فیشن ایبل اور بے پردہ تھی میرا کوئی مذاق نہیں   اُڑاتا تھا، جُوں   ہی میں   نے شَرعی پردہ اپنایا، ستائی جانے لگی ۔  اللہ  عَزَّ وَجَلَّ  کا شکر ہے کہ مجھ سے ظُلْم پرصَبْر کرنے کی سنّت ادا ہو رہی ہے  ۔ مَدَنی التجاء ہے کہ کیسا ہی صَدمہ پہنچے صَبْر کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑ یئے نیز  بِلا

Index