ہے : اپنی عورَتوں کو کاتنا(پرانے زمانے میں کپڑا گھروں میں بُنا جاتا تھا اسے کاتنا کہتے ہیں اس حدیث کا مقصود یہ ہے کہ انہیں سِینا، پِرَوناوغیرہ خا نگی اُمور سکھاؤ) سکھاؤ اور انہیں ’’سورۃُ النُّور‘‘کی تعلیم دو ۔ ( اَلْمُسْتَدْرَک ج ۳ ص ۱۵۸ حدیث ۳۵۴۶ )منقول ہے : حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن عبّاس رضیَ اللہُ تعالٰی عَنْہُمَا نے سورۃُ النُّور کو موسِمِ حج میں مِنبر پر تِلاوت فرمایا اور اس کی ایسے نَفیس پَیرایے میں تشریح فرمائی کہ اگر رُومی اسے سُن لیتے تو مسلمان ہو جاتے ۔ ( تفسیرِ مدارک ص۷۹۳)
سورۂ نور اَٹھارھویں پارے میں ہے ، اِس میں 9رُکوع اور 64آیاتِ مُبارَکہ ہیں ۔ لڑکیوں کواِس کی ضَرور تعلیم دی جائے بلکہ تمام ہی اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کو اِس کا ترجَمہ و تفسیر پڑھنا چاہئے ۔
سُوال : سورۂ نور کی تفسیر کون سی پڑھیں ؟
جواب : خَزائنُ الْعِرفان یا نورُالْعِرفان سے پڑھ لیجئے ۔ مزیدمُفَصَّل تفسیر پڑھنا چاہیں تو خلیلُ العُلَماء حضرتِ خلیلِ ملّت مفتی محمد خلیل خان قادِری بَرَکاتی مارَہروی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کی ’’ سورۃُ النُّور ‘‘ کی تفسیر ’’ چادر اور چار دیواری‘‘ کا مطالَعَہ فرمایئے ۔ اِس تفسیر کی خاص خوبی یہ ہے کہ اِس میں ترجَمہ کنزالایمان شریف سے لیا گیا ہے ۔
اسلامی بہنو!سنّتوں بھری تحریک ، دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے ہر دم وابَستہ رہئے ، ایک مبلِّغۂ دعوتِ اسلامی نے دعوتِ اسلامی میں اپنی شُمُولیّت کے جو اسباب بیان کئے وہ سُننے سے تعلُّق رکھتے ہیں ، چُنانچِہایک اسلامی بہن کے تحریری بیان کا لُبِّ لُباب ہے کہ میں نت نئے فیشن کے کپڑے پہنا کرتی اور بے پردہ ہی گھر سے نکل جایا کرتی تھی ۔ ایک مرتبہ چند اسلامی بہنیں ہمارے گھر آئیں اور دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول کی برکتیں بتاتے ہوئے ہمارے گھر میں سنّتوں بھرا اِجتماع کرنے کی اجازت مانگی ۔ ہم نے بخوشی اجازت دی، آخِر اجتماع کا دن بھی آگیا ، میں خُود بھی اس اجتماع میں شریک ہوئی ، مجھے اسلامی بہنوں کی سادگی ، حُسنِ اَخلاق اور مَدَنی کام کرنے کا اندازبَہُت پسند آیا بِالخصوص رقّت انگیز دُعاسے میں بَہُت مُتَأَثِّر ہوئی ، ایسی دُعا میں نے پہلی مرتبہ سُنی تھی ۔ یُوں اس اجتماع کی بَرَکت سے مجھے گناہوں سے توبہ نصیب ہوئی اور میں مَدَنی ماحول سے وابَستہ ہوگئی ۔ فیشن ترک کر کے میں نے بھی سادگی اپنالی اور اب ذَیلی سطح کی ذمّے دار کی حیثیت سے دعوتِ اسلامی کا مَدَنی کام کر کے اپنی آخِرت بنانے کے لئے کوشاں ہوں ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ مکتبۃ المدینہ کا جاری کردہ ایک کیسٹ بیان روزانہ سننے کا بھی معمول ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے اتنا پیارا مَدَنی ماحول عطا کیا ، اے کاش! ہر اسلامی بہن دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابَستہ ہوجائے ۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اسلامی بہنو! مَثَل مشہور ہے کہ’’ پیاسے کو کنویں پر جانا پڑتا ہے ‘‘ مگر اِس مَدَنی بہار میں یہ کمال موجود ہے کہ کنواں خود چل کر پیاسی کے گھر آ پہنچا! یعنی اسلامی بہنوں نے خود آ کر اس ماڈَرن اسلامی بہن کے گھر میں سنّتوں بھرا اجتماع کیا جو کہ اس کی تقدیر سنورنے اور اُس پر مَدَنی رنگ چڑھنے کا سبب بن گیا! واقِعی گھر جا جا کر ، خوش خُلقی کے ساتھ مسکرا کرمَدَنی پھول لُٹانا بَہُت سوں کی بگڑیاں بنا دیتا ہے ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہعَزَّوَجَلَّ مسکرا کر گفتگو کرنا سنّت ہے ۔ اگر کوئی یوں ہی بطورِ عادت مسکرا کر بات کرے تو اسے ادائے سنّت کا ثواب نہیں ملیگا، بات کرتے وقت دل میں یہ نیّت کرنی ہوگی کہ میں ادائے سنّت کیلئے مسکرا کر بات کروں گا( یا کروں گی ) ۔ کاش ہمیں ادائے سنّت کی نیّت سے مسکرا کر بات کرنے کی عادت نصیب ہو جائے ۔ اِس ضِمن میں ایک مَدَنی پھول قَبول فرمایئے چُنانچِہ حضرتِ سَیِّدَتُنا اُم دَرداءرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا ، حضرت ِسیِّدُناابو دردا ء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کیمُتَعَلِّق فرماتی ہیں کہ وہ ہر بات مسکرا کر کیا کرتے ، جب میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا توانہوں نے جواب دیا، ’’ میں نے نبیِّ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ وَالہٖ وَسلَّم کو دیکھا کہ آپ دوران گفتگو مسکراتے رہتے تھے ۔ ‘‘(مکارم الاخلاق للطبرانی رقم۲۱)
سُوال : ’’آجکل پردہ ضَروری نہیں ‘‘ایسا کہنا کیسا ہے ؟
جواب : اس طرح کہناانتہائی حماقت و جہالت اور نہایت ہی سخت بات ہے ۔ اس قِسم کے کلمات سے مُطلقاً پردے کی فرضیّت کے انکار کا اظہار ہوتا ہے اور سِرے سے پردے کی فرضیَّت ہی کا انکارکُفر ہے ، البتّہ َّاگر کوئی پردے کی فرضیَّت کا قائل ہے مگر پردے کی کسی خاص نَوعِیَّت ( یعنی مخصوص طرز)کا اِنکار کرتا ہے جس کا تعلُّق ضَروریاتِ دین سے نہیں تو پھر حکمِ کُفْر نہیں ۔
سُوال : اِس طرح کہنا کیسا، کہ ’’پِیر سے کیا پردہ!پِیر صاحِب سے بھی بھلا کوئی پرد ہ ہوتا ہے !یا نامَحرم رشتہ داروں، پڑوسیوں یا گھر میں آنے جانے والے مخصوص لوگوں کے مُتَعلِّق اس طرح کہدینا کہ، ’’آپ تو گھر کے آدَمی ہیں آپ سے کیا پردہ کرنا!‘‘
جواب : یہ بھی سراسر حماقت وجہالت ہے اسطرح کی باتیں کہنے والے توبہ کریں ۔ نامحرم پیر صاحِب سے اور ہر اجنبی رشتے دار، دوست دار اور اہلِ جَوار ( یعنی پڑوسیوں )سے پردہ ہے ۔