چکے ہوں اور لوگ معزَّز انداز میں ان سے مانوس ہو چکے ہوں اور لوگوں کے دلوں میں ان کا وقار اور عام نگاہوں میں ان کی وَقعت (عزَّت) قائم ہو چکی ہو کہ اب بڑے لوگوں کی لڑکیوں کیلئے عار (یعنی رُسوائی کاسبب ) نہیں رہے تو اور بات ہے ۔ اِلَخ(فتاوٰی رضویہ مُخَرَجَّہ ج ۱۱ ص ۷۱۵)
(4)دِیانت میں کفو ہونا
سُوال : دِیانت میں کُفوہونے سے کیا مراد ہے ؟
جواب : دِیانت سے مُرادتقویٰ، مکارِمِ اَخلاق(یعنی اخلاقی خوبیاں ) اور دُرُست عقائد میں ہم پلّہ ہونا ہے ۔
سُوال : فاسِق باپ کی صالِحہ(یعنی نیک پرہیز گار) لڑکی بِلا اذنِ ولی فاسِق سے نکاح کرلے تو نکاح ہوگایا نہیں ؟
جواب : ایسا نکاح ہو جائے گا ۔ ( رَدُّالْمُحتار ج۴ ص۲۰۲)
سُوال : ایک نوجوان شراب پیتا ہے اور اس کا یہ عمل لوگوں میں معرو ف ہے یہ شرابی لڑکا، مُتَّقی پرہیزگارباپ کی بیٹی کا کُفو ہے یا نہیں ؟
جواب : کُفو نہیں ۔ صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ بہارِ شریعت حصّہ 7 صَفْحَہ 54پرفرماتے ہیں : فاسق شخص مُتَّقی(یعنی پرہیز گار) کی لڑکی کا کُفو نہیں اگرچِہ وہ لڑکی خودمُتَّقِیَّہ(یعنی پرہیز گار)نہ ہو ۔ ( دُرِّمُختار ج۴ ص ۲۰۱وغیرہ) اور ظاہر ہے کہ فسقِ اعتِقادی(عقائد کی خرابی) فسقِ عملی (اعمال کی خرابی) سے بَدَرَجَہا(یعنی کئی دَرَجے ) بدتر، لہٰذا سُنّی عورت کا کُفو وہ بد مذہب نہیں ہوسکتا جس کی بدمذہبی حدِّ کفر کو نہ پہنچی ہو اور جو بد مذہب ایسے ہیں کہ اُن کی بد مذہبی کُفر کو پہنچی ہو(یعنی مُرتد ہو چکے ہوں )، ان سے تو نِکاح ہی نہیں ہوسکتا کہ وہ مسلمان ہی نہیں ، کُفو ہونا تو بڑی(دورکی) بات ہے ۔ (بہارِ شریعت حصّہ ۷ ص ۵۴ )
(5)مال میں کفائت (یعنی کفو ہونا)
سُوال : مال میں کفوہونے سے کیا مراد ہے ؟
جواب : مال میں کفائت(یعنی کفو ہونے )کے یہ معنی ہیں کہ مرد کے پاس اتنا مال ہو کہ مہرِمُعَجَّل(یعنی نقد مہر) اورنَفَقہ(یعنی روٹی کپڑے وغیرہ) دینے پر قادر ہو ، اگر پیشہ(دھندا) نہ کرتا ہو تو ایک ماہ کانَفَقہ دینے پر قادِر ہو، ورنہ روز کی مزدوری اتنی ہو کہ عورت کے روز کے ضروری مصارِف(یعنی اَخراجات) روز دے سکے ۔ اس کی ضَرورت نہیں کہ مال میں یہ اس کے برابر ہو ۔ (بہار شریعت حصّہ۷ ص ۵۴ )
کُفْوْ سے مُتَعلِّق مُتَفَرَّقات
سُوال : کیا نابالِغ اور نابالِغہ کے نکاح کیلئے بھی کُفو کی حاجت رہتی ہے ؟
جواب : نابالِغ لڑکایا لڑکی خود اِیجاب و قبول کی اہلیَّت نہیں رکھتے ان کے نکاح کیلئے ولی ہی ایجاب و قَبول کرتا ہے لہٰذا نابالغ کا نکاح تو ولی کے بِغیرہو ہی نہیں سکتاالبتَّہ بعض صورَتوں میں یہاں بھی لڑکے کا کُفو ہونا نکاح کے لئے شرط ہے ۔ مَثَلاً ایک صورت یہ ہے کہ نابالِغہ لڑکی کا نکاح جب باپ دادا کی غیر موجودَگی میں کوئی اور ولیٔ اَبعَد(یعنی دُور کا ولی) کرے توکُفوکا ہونا ضَروری ہے ۔ اسی طرح نابالِغہ کا نکاح باپ صرف ایک ہی مرتبہ غَیرکُفو میں کرسکتا ہے اس ایک کا نکاح کر دینے کے بعد اب اپنی کسی اور بیٹی کا نکاح بھی غیرِکفو میں کرے تو اس کا اسے اختیار نہیں ۔ چُنانچِہ نابالغِہ کے نکاح کے متعلق میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 11 صَفْحَہ717 پر فرماتے ہیں : اور اگر نابالِغہ ہے اور اس کا نکاح باپ دادا کے سوا کوئی ولی اگر چِہ حقیقی بھائی یا چچا یا ماں ایسے شخص سے کر دے (جو کہ نابالِغہ لڑکی سے کمتر ہو) تو وہ بھی باطِل و مَردُود ہو گا اور باپ دادا بھی ایک ہی بار(نابالِغہ کا) ایسا نکاح کر سکتے ہیں (جس میں لڑکا ، لڑکی سے کمتر ہو)دوبارہ اگر کسی دختر کانکاح ایسے (کمتر) شخص سے کریں گے تو اُن کا کیا ہوا(نکاح)بھیباطِل ہو گا ۔
سوال : لڑکی نے ایک شخص کے ساتھ بِلا اجازتِ اولیا ء نکاح کیا ۔ وقتِ نکاح وہ لڑکی کا کفو تھا لیکن بعد میں بدچلن ہو گیا اور سرِ عام شرا بیں پینے لگا ! کیا اس اِقدام میں نکاح پر کوئی اثر پڑے گا؟
جواب : صرف وقتِ نکاح کفو کا اعتبار کیا جاتا ہے پوچھی گئی صورت میں لڑکا جب وقتِ نکاح لڑکی کا کُفو تھاتو نکاح مُنْعَقِد ہو گیا اور بعد میں لڑکے کے بد چلن ہونے سے نکاح کے اِنعِقاد پر کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ فتاوٰی رضویہ میں ہے : ’’کفائت کا اِعتبار ابتدائے نکاح کے وقت ہے اگراُس وَقت کُفو ہو پھر کفائت جاتی رہے تو اس کا لحاظ نہ ہو گا ۔ ‘‘ (فتاوٰی رضویہ ج۱۱ ص۷۰۴)
سوال : زید نے بکر کو ہر طرح سے اطمینان دلا یا کہ وہ بکر کا کُفو ہے اس کی باتوں کا اعتما د کرتے ہوئے اور زید کو اپنا کُفو جانتے ہوئے بکر نے اپنی نابالِغہ لڑکی ہِندہ کا نکاح زید کے ساتھ کردیا