پردے کے بارے میں سوال جواب

ک دار بُرقع پردہ نہیں   بلکہ زینت ہے  ۔  ( مراٰۃ ج۵ ص ۱۵ )

سُوال : عورت سفید یا خوبصورت فلاور چادر کے ذَرِیعے اگر مکمّل جِسم چُھپا کر نکلے تو؟

جواب : چادر میں   کسی طرح کی کشِش نہیں   ہونی چاہئے  ۔  چُنانچِہحُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام محمد بن محمد غزالیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی کے فرمانِ عالی کاخُلاصہ ہے کہ عام عورَتیں   جو جاذِبِ نظر چادرو نِقاب اَوڑھتی ہیں   یہ ناکافی ہے  بلکہ جب وہ سفید چادراَوڑھتی یا خوبصورت نِقاب ڈالتی ہیں   تو اس سے شَہوت کومزید تَحریک ہوتی ہے کہ شاید منہ کھولنے پر وہ اور زیادہ حَسین نظر آئے ! پَس سفید چادر اور خوبصورت نِقاب و بُرقع پہنے ہوئے باہَر جانا عورت کے حقّ میں   حرام ہے  ۔  جو عورت ایسا کرے گی گنہگار ہو گی اور اس کا باپ ، بھائی ، شوہر جو اسے اسکی اجازت دے گا وہ بھی اس کے ساتھ گناہ میں  شریک ہو گا ۔  (کیمیائے سعادت ج۲ ص  ۵۶۰)

مَدَنی بُرقَع

سُوال : تو پھر بُرقَع کیسا ہو؟

جواب : موٹے کپڑے کا ڈِھیلا ڈھالااور بَھدّے رنگ کا خَیمہ نُماسادہ سا برقع ہو ، ’’   جس کو پہننے والی کے بارے میں  انداز ہ لگانا دشوار ہوجائے کہ یہ جوان ہے یا بوڑھی ۔  ‘‘

اسلامی بہنوں   کو تنبیہ

            مجھے ( سگِ مدینہ عفی عنہ کو) ماڈرن گھروں   کے مُعاملات ، فرنگی تہذیب کے دلدادہ رشتے داروں   کے خیالات اور آج کل کے نامُساعِد حالات کے مکمَّل اِحساسات ہیں   مگر میں   نے اسلامی احکامات عرض کئے ہیں   تا کہ شرعی پردے کا صحیح اسلامی نظریہ سامنے آ جائے بے شک ہر مسلمان یہ جانتا ہے کہ ہمیں   شَرِیعت کے پیچھے چلنا ہے ، شریعت ہمارے پیچھے نہیں   چلے گی  ۔  اسلامی بہنوں   سے مدَنی التجاء ہے کہ کسی کو بھی ڈھیلا ڈھالا بھدّے رنگ کا بالکل بے کشَش خَیمہ نُما حقیقی مَدَنی بُرقَع پہننے پر مجبور نہ کریں  کہ کئی گھروں   میں   سختیاں   بَہُت زیادہ ہیں  ، شریعت و سنّت کے احکامات پر عمل کرنے والوں   اور والیوں   کے ساتھ آج کل مُعاشَرے میں   اکثر بے حد ناروا سُلوک کیا جاتا ہے ، جس کے سبب اکثر اسلامی بہنیں   ہمّت ہار جاتی ہیں   ۔  آپ کی تنقید سے ہو سکتا ہے کوئی اسلامی بہن موجودہ مُعاشَرے کے ہاتھوں   مجبور ہو کر مَدَنی ماحول ہی سے محروم ہو جائے  ۔  بے شک کتنی ہی پُرانی اسلامی بہن ہو اور وہ کیسا ہی خوبصورت بُرقع پہنے یا میک اپ کرے اُس پر طنز کر کے اس کی دل آزاری نہ کریں   کہ بِلامَصلحتِ شَرعی مسلمان کا دل دُکھانا حرام اور جہنَّم میں   لے جانے والا کام ہے  ۔   

مَحَلّے میں   بُرقع کھولد ینا کیسا؟

سُوال :   بعض اِسلامی بہنیں   اپنی بلڈنگ یا گلی وغیرہ میں   پہنچتے ہی گھر میں   داخِل ہونے سے قَبل بُرقَع اُتار دیتی ہیں   ۔ کیا یہ مناسِب ہے ؟

جواب : جب تک گھر کے اندر داخِل نہ ہوجائیں   اُس وَقت تک بُرقع تو بُرقَعْ چِہرہ سے نِقاب بھی نہ ہٹائیں   کہ گلی اوربِلڈنگ کی سِیڑھیوں   وغیرہ پر بھی  نا مَحرم افراد ہوسکتے ہیں   اور ان سے پَردہ کرنا ضَرروی ہے  ۔

مَدَنی بُرقعے میں   گرمی لگتی ہو تو.......؟

سُوال : گرمیوں   کے موسِم میں   مَدَنی بُرقع پہن کریا موٹی چادر میں   بَدَن چُھپا کر باہَر نکلنے سے گرمی لگتی ہو، شیطٰن وَسوَسے ڈالتا ہو تو کیا کرے ؟

جواب : شیطانی وسوسوں   کی طرف توجُّہ نہ دینا بھی دافِعِ وسوسہ ھے  ۔  ایسے مواقِع پر موت ، قَبْر وحَشْر اور جہنَّم کی سخت گرمی کو یاد کیجئے اِن شاءَ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ شَرعی پردے کی وجہ سے لگنے والی گرمی پُھول معلوم ہو گی ۔ ہو سکے تو اِس واقِعے کو یاد فرما لیا کریں   : غَزوَئہ تَبوک میں   مَوسِم سخْت گرم تھا ، اِس موقع پر مُنافِقین بولے :  لَا تَنْفِرُوْا فِی الْحَرِّؕ- ترجَمۂ کنزالایمان :  اس گرمی میں   نہ نکلو ۔  اس پر اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ نے ارشاد فرمایا : قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ اَشَدُّ حَرًّاؕ- ( اے محبوب !) تم فرماؤ جہنَّم کی آگ سب سے سخت گرم ہے  ۔  ( پارہ ۱۰ التّوبہ ۸۱) خدا کی قسم !مَدَنی بُرقَع کی گرمی بلکہ دنیا کی بڑی سے بڑی آگ بھی نارِ جہنَّم کے مقابلے میں  کچھ نہیں   ۔

آقا تپتے ہوئے صَحرا میں 

          مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان فرماتے ہیں  : حضرت سیّدُنا ابو خَیثَمہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا جذبہ تو دیکھئے ! غزوۂ تَبوک کے موقع پر (آپ کسی اور مقام سے جب) سفر سے دوپَہر کے وَقْت اپنے باغ میں   تشریف لائے وہاں   دیکھا کہ ٹھنڈا پانی، گرما گرم روٹیاں   اور خوبصورت بیویاں   حاضِر ہیں   ۔  فرمایا  : انصاف کے خلاف ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   تَبوک کے تپتے ہوئے صَحرا میں   ہوں   اور میں   باغ کے اندر گرم روٹیا ں  اور ٹھنڈا پانی استِعمال کروں   ! (دُور دراز کے سفر اور تھکن اور سخت گرمی کے باوُجُود)اپنے گھر میں   داخِل ہوئے بِغیر ہی تلوار لے کر چل پڑے اور سرکا ر ِنامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے قدموں   میں   حاضِر ہوگئے  ۔  یہی وہ حضرات ہیں   جن کے صدقے میں  ہم جیسے لاکھوں   گنہگار بخشے جائیں   گے  ۔ اِن شاءَ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ (نورالْعِرفان، ص ۳۱۸ ، روح البیان ج۳ص۴۷۵)    اللہ  عَزَّ وَجَلَّ  کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔  اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      

 بالوں   کے بارے میں   سُوال جواب

 

Index