سے پردہ چاہئے ۔ ‘‘ ( نور العرفان ص ۵۶۴ ) فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلام فرماتے ہیں : مُشْتَھاۃ( یعنی قریبُ البُلُوغ لڑکی) کی کم از کم عمر نو سال اورمُراہِق( یعنی قریبُ البُلُوغ لڑکے ) کی بارہ سال ہے ۔ ( رَدُّالْمُحتَار ج ۴ ص ۱۱۸ )میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’نو برس سے کم کی لڑکی کو پردہ کی حاجت نہیں اور جب پندرہ برس کی ہو سب غیر محارم سے پردہ واجب ، اور نو سے پندرہ تک اگر آثارِ بُلوغ ظاہِر ہوں تو( بھی پردہ) واجب ، اور نہ ظاہر ہوں تو مُستحب خصوصاََ بارہ برس کے بعد بَہُتمُؤَکَّد( یعنی سخت تاکید ہے ) کہ یہ زمانہ قُرب ِبُلوغ وکمالِ اِشتِہاکاہے ( یعنی 12برس کی عمر کی لڑکی کے بالِغہ ہوجانے اور شَہوت کے کمال تک پہنچنے کا قریبی دَور ہے )(فتاویٰ رضویہ ج۲۳ ص ۶۳۹)
سُوال : کیا اسلامی بہن کا کافِرہ عورَت سے بھی پردہ ہے ؟
جواب : جی ہاں ۔ کافِرہ عورَت سے بھی اُسی طرح پردہ ہے جس طرح غیر مرد سے ۔ کافرہ عورت سے پردہ کی تفصیل یہ ہے کہ اسلامی بہن کا کافرہ عورت سے اسی طرح کا پردہ ہے جس طرح کہ ایک اجنبی مرد سے پردہ ہوتا ہے یعنی اصل مذہب کے مطابق عورت کے لئے سوائے چہرے کی ٹکلی، ہتھیلی اورٹخنے کے نیچے پاؤں کہ جسے ظاہرِ زینت کہا جاتا ہے تمام جسم کا اجنبی سے چھپانا ضروری ہے اور ’’مُتَأَ خِّرین‘‘ کے نزدیک اجنبی مرد سے یہ تین اعضاء بھی چھپائے جائیں گے ۔ عورت کو اجنبی مرد سے پردہ کے احکام پارہ 18 سورۃُ النُّورکی آیت نمبر 31 میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اسی آیت مبارَکہ میں مسلمان عورت کا کافرہ سے پردے کا حکم بھی بیان ہوا کہ سوائے مَا ظَهَرَ مِنْهَا یعنی جتنا خود ہی ظاہر ہے ] کے ایک مسلمان عورت کاتمام جسم جس طرح اجنبی مرد کے لئے عورت (یعنی چھپانے کی چیز)ہے اسی طرح کافرہ کے لئے بھی ستر (یعنی چھپانے کی چیز)ہے جیسا کہ مقامِ استثناء میں اَوْ نِسَآىٕهِنَّ (یعنی یااپنے دین کی عورتیں )سے ظاہر ہے ۔ چنانچِہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے :
وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ۪-وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىٕهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآىٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ۪-وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّؕ-وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۱)(پ، ۱۸، النور، ۳۱)
میرے آقائے نعمت، اعلٰیحضرت، امامِ اہلسنّت، عظیمُ البَرَکت، عظیمُ المرتبت، پروانۂ شمعِ رسالت، مُجَدِّدِ دین و ملّت، پیرِ طریقت، عالِمِ شَرِیْعَت، حامِیٔ سُنّت، ماحِیِٔ بدعت، باعِثِ خیر و بَرَکت، مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رَحمۃُ الرّحمٰن اپنے شُہرئہ آفاق تَرجَمَۂ قرآن کنزُالایمانمیں اِس کا ترجَمہ یوں فرماتے ہیں : اور مسلمان عورتوں کو حکم دواپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤنہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے اور دوپٹّے اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپناسنگار ظاہِر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹے یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائی یا اپنے بھتیجے یا اپنے بھانجے یا اپنے دین کی عورَتیں یا اپنی کنیزیں جو اپنے ہاتھ کی مِلک ہوں یا نوکر بشرطیکہ شَہوت والے مرد نہ ہوں یا وہ بچّے جنھیں عورَتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جانا جائے ان کا چھپا ہوا سنگار اور اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ) کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو سب کے سب اس امّید پر کہ تم فَلاح پاؤ ۔
حضرتِ صدر الْاَفاضِل سیِّدُنا و مولیٰنا محمد نعیم الدین مُراد آبادی علیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادی خَزائنُ العرفانمیں اِس حصّۂ آیت اَوْ نِسَآىٕهِنَّ (یعنی یااپنے دین کی عورتیں )کے تحت فرماتے ہیں : امیرُالْمُؤمِنِینحضرتِ سیِّدُنا عُمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرتِ سیِّدُنا ابوعُبَیدہ بن جراح رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو لکھا تھا کہ کُفّار اہلِ کتاب کی عورَتوں کو مسلمان عورتوں کے ساتھ حمّام میں داخل ہونے سے منع کریں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ مُسلمہ عورت کو کافِرہ عورت کے سامنے اپنا بدن کھولنا جائز نہیں ۔
میرے آقااعلیٰ حضرت ، امامِ اہلِ سنّت، مُجَدِّدِدین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : ’’ شَرِیْعت کاتو یہ حکم ہے کہ کافِرہ عورت سے مسلمان عورت کو ایسا پردہ واجِب ہے جیسا انھیں مَرد سے ۔ یعنی سر کے بالوں کا کوئی حصّہ یا بازو یا کلائی یا گلے سے پاؤں کے گِٹّوں کے نیچے تک جسم کا کوئی حصّہ مسلمان عورت کا کافِرہ عورت کے سامنے کُھلاہونا جائز نہیں ۔ ‘‘ (فتاوٰی رضویہ ج ۲۳ص ۶۹۲ )
سُوال : کیا فاسقہ عورت سے بھی پردہ کرنا ضروری ہے ؟
جواب : نہیں ۔ کبیرہ گناہ کرنے والی یا صغیرہ گناہ پر اصرار کرنے والی مَثلاً نَماز نہ پڑھنے والی، ماں باپ کو ستانے والی، غیبت و چغلی کرنے والی فاسِقہ کہلاتی ہے ۔ جبکہ زانیہ ، فاحِشہ اور بدکار عورت کو فاسِقہ کے ساتھ ساتھ فاجِرہ بھی کہتے ہیں ۔ فاسِقہ سے پردہ نہیں اور فاجِرہ سے بھی پردہ کرنے کا احتیاطاً حکم ہے ۔ اُس کی صُحبت سے بچنا بے حد ضَروری ہے کہ بُری صُحبت بُرا پھل لاتی ہے ۔ فاجِرہ سے ملنے کے بارے میں حکمِ شَریعت بیان کرتے ہوئے میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ارشاد فرماتے ہیں : ہاں یہ(یعنی اُس سے پردہ کرنے کا) حُکم اِحتیاطی ہے ، مگریہ اِحتیاط ضَروری ہے جب دیکھے کہ اب کچھ بھی بُرا اثر پڑتا معلوم ہوتا ہے فوراً اِنقِطاعِ کُلّی ( یعنی مکمَّل دُوری اختیار) کرے اور اس کی صُحبت کو آگ جانے ۔ اور انصاف یہ ہے کہ بُرا اثر پڑتے معلوم نہیں ہوتا اور جب پڑ جا تا ہے تو پھر اِحتیاط کی طرف ذِہن جانا قدرے دشوار ہے لہٰذا امان و سلامت (فاجِرہ سے )جُدا رہنے ہی میں ہے ۔ وَبِا للّٰہِ التَّوفیق( اور