پردے کے بارے میں سوال جواب

            ایک زَن (یعنی خاتون)خَثْعَمِیَّہنے خدمت ِاقدسِ حُضور سرورِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   میں  حاضِر ہوکر عرض کی :  یارسولَ اﷲ! حُضُور مجھے سُنائیں   کہ شوہر کا حق عورت پر کیا ہے کہ میں   زَنِ بے شوہر ہوں   اُس کے اداکی اپنے میں   طاقت دیکھوں   تو نکاح کروں   ورنہ یوں   ہی بیٹھی رہوں   ۔  فرمایا : تو بیشک شوہر کا حق زَوجہ پر یہ ہے کہ عورت کجا وہ([1])پر بیٹھی ہو اور مرد اُسی سواری پر اس سے نزدیکی چاہے تو انکار نہ کرے ، اورمرد کا حق عورت پر یہ ہے کہ اس کے بے اجازت کے نفل روزہ نہ رکھے اگر رکھے گی توعَبَث(بے کار) بُھوکی پیاسی رہی روزہ قبول نہ ہوگا اور گھر سے بے اِذنِ(یعنی بے اجازتِ) شوہر کہیں   نہ جائے اگر جائے گی تو آسمان کے فرِشتے ،  رَ حمت کے فرِشتے ، عذاب کے فرِشتے سب اُس پر لعنت کرینگے جب تک پلٹ کر آئے  ۔  یہ ارشاد سُن کر اُن بی بی نے عرض کی : ٹھیک ٹھیک یہ ہے کہ میں   کبھی نکاح نہ کرونگی ۔  ( مَجْمَعُ الزَّوائِد ج ۴ ص۵۶۳حدیث۷۶۳۸)

(2) نتھنوں   کا خون پیپ چاٹے تب بھی ۔  ۔  ۔  ۔  ۔

            ایک بی بی رضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہانے دربارِ دُربار سیّد الابرار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  میں   حاضر ہوکر عرض کی :  میں  فُلاں   دُخترِفُلاں   ہوں   ۔  فرمایا :  میں   نے تجھے پہچانا اپناکام بتا ۔  عرض کی :  مجھے اپنے چچا کے بیٹے فُلاں   عابد سے کام ہے  ۔  فرمایا :  میں   نے اُسے بھی پہچانا یعنی مطلب کہہ ۔  عرض کی :  اس نے مجھے پیام دیا ہے  ۔  تو حضور( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ) ارشاد فرمائیں   کہ شوہر کا حق عورت پر کیا ہے ، اگر وُہ(حق) کوئی چیز میرے قابو کی ہوتو میں  اُس سے نکاح کرلوں   ۔ فرمایا : مرد کے حق کا ایک ٹکڑا یہ ہے کہ اگر اُس کے دونوں   نتھنے خون یا پیپ سے بہتے ہوں  اور عورت اُسے اپنی زَبان سے چاٹے تو شوہر کے حق سے ادا نہ ہوئی، اگر آدمی کا آدمی کو سجدہ روا ہوتا تو میں   عورت کو حکم دیتا کہ مرد جب باہَر سے اس کے سامنے آئے ، اسے سجدہ کرے کہ خدا (عَزَّوَجَلَّ)نے مرد کو فضیلت ہی ایسی دی ہے  ۔ یہ ارشاد سُن کر وہ بی بی(رضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہا) بولیں   : قسم اس کی جس نے حُضُور( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کو حق کے ساتھ بھیجا میں   رہتی دنیا تک نکاح کانام نہ لُوں  گی(اس کو بزاز اور حاکم نے حضرت ابو ہریرہ رضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہ سے روایت فرمایا) (اَلْمُسْتَدْرَک لِلْحاکِم ج۲ ص ۴۷ حدیث۲۸۲۲)

(3)میں   کبھی شادی نہ کروں   گی

            ایک صاحب(رضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہ) اپنی صاحبزادی (رضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہا)کو لے کر درگاہِ عالم پناہ حضور سیّد العٰلمین  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  میں   حاضر ہوئے اورعرض کی :  میری یہ بیٹی(رضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہا) نکاح کرنے سے انکار رکھتی ہے  ۔  حُضور  صلواتُ اﷲِتَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا : اَطِیْعِی اَبَاکِ (یعنی) اپنے باپ کا حکم مان ۔  اُس لڑکی (رضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہا)نے عرض کی :  قسم اُس کی جس نے حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کو حق کے ساتھ بھیجا، میں  (اس وقت تک) نکاح نہ کروں   گی جب تک حُضُور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )یہ نہ بتائیں   کہ خاوَند کا حق عورت پر کیا ہے  ۔ فرمایا :  شوہر کا حق عورت پر یہ ہے اگر اس کے کوئی پھوڑا ہو عورت اسے چاٹ کر صاف کرے یا اس کے نتھنوں   سے پیپ یا خون نکلے عورت اسے نگل لے تو مرد کے حق سے ادا نہ ہوئی ۔ اس لڑکی(رضِیَ اللہُ تَعَالٰی عنہا)نے عرض کی : قسم اس کی جس نے حُضور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  )کو حق کے ساتھ بھیجا میں   کبھی شادی نہ کروں   گی ۔ حُضُور پُر نور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے فرمایا : عورَتوں   کا نکاح نہ کرو جب تک ان کی مرضی نہ ہو ۔ (مَجْمَعُ الزَّوائِد ج ۴ ص۵۶۴حدیث۷۶۳۹)

        اسلامی بہنو!ان احادیثِ مبارَکہ سے معلوم ہوا کہ صَحابیات رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلیْہُنَّ اَجْمَعِیْن کی سیرتِ طیِّبہ جہاں   ہمیں   یہ سکھاتی ہے کہ انہیں   پیش آمدہ مسائل کے بارے میں   علمِ دین حاصل کرنے کی جُستجو رہتی تھی وَہیں   یہ واقعات شوہر کے حُقُوق کے بارے میں  صَحابیات رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلیْہُنَّ اَجْمَعِیْن کی مَدَنی سوچ کا پتا دیتے ہیں   کہ وہ اپنے آپ فیصلے کرنے میں   اللہ  عَزَّ وَجَلَّ  اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی نافرمانی سے بچنے کوسامنے رکھتی تھیں    ۔ اور اندیشۂ گناہ سے بھی محتاط رہا کرتی تھیں    ۔ ان احادیثِ مقدّسہ میں   شوہر والیوں   کے  لئے بھی یہ درس ہے کہ وہ اپنے شوہر کے حُقُوق میں   ہرگز کمی نہ کریں   ۔

مَیکے والے مُحتاط رہیں 

سُوال :  آج کل اکثر مَیکے والے شوہر کے خلاف کان بھرتے رہتے ہیں   اس کے بارے میں   کچھ مَدَنی پھول دے دیجئے  ۔

جواب :  اوّل تو اسلامی بہن کو چاہئے کہ اگر سُسرال میں   کوئی پریشانی ہے بھی تو اُس پر صَبْر کر کے اَجر کمائے  ۔  کیوں   کہ وہ جب مَیکے میں   آ کر بھڑاس نکالتی ہے تو اکثر غِیبتوں   ، تُہمتوں   ، بد گُمانیوں   اورپردہ دَریوں   وغیرہ کبیرہ گناہوں   کا سلسلہ شُروع ہو جاتا ہے اور پھر مَیکے والے شوہَریا سُسرال کے خلاف کان بھرنے کا کام سنبھال لیتے اور یوں   مزید گناہوں   اور فتنوں   کے راستے کُھلتے ہیں   ۔  میکے والوں   کو چاہئے کہ جب کان بھرنے یعنی شوہر یا سسرال کے خلاف بولنے کا ذِہن بنے تو کم از کم ان دو



[1]     کَجاوہ یعنی اونٹ کی کاٹھی جس پر دو افراد آمنے سامنے بیٹھتے ہیں ۔

Index