مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیث پاک کے الفاظ ’’ اسے شرم نہ دلاؤ ں گا‘‘ کے تحت فرماتے ہیں : یعنی آنکھ پھوڑ دینے والے کو نہ تو کوئی سزا دوں گا نہ ملامت کروں گا کیونکہ یہاں قُصور اس جھانکنے والے کا ہے (یاد رہے ! ) احناف کے نزدیک یہ فرمانِ عالی ڈرانے دھمکانے کے لیے ہے ورنہ اس آنکھ پھوڑنے والے سے آنکھ کا قِصاص ضَرور لیا جائے گا ربّ تعالیٰ نے فرمایا : اَلْعَیْنَ بِالْعَیْنِ ، آنکھ تو آنکھ کے بدلے میں پھوڑی جاسکتی ہے نہ کہ تاک جھانک کے عوض ۔ (مراٰۃ ج۵ ص۲۵۷)
سُوال : کیا گفتگو کرتے ہوئے نظر نیچی رکھنی ضَروری ہے ؟
جواب : اِس کی صورَتیں ہیں مَثَلاً مَرد کا مُخاطَب ( یعنی جس سے بات کر رہے ہیں وہ) اَمْرَد ہو اور اُس کو دیکھنے سے شَہوت آتی ہو(یا اجازتِ شَرعی سے مرد اجنبیہ سے یا عورت اجنبی مَرد سے بات کر رہی ہو ) تو نظراس طرح نیچی رکھ کر گفتگو کرے کہ اُس کے چہرے بلکہ بدن کے کسی عُضو حتّٰی کہ لباس پر بھی نظر نہ پڑے ۔ اگر کوئی مانعِ شَرعی(یعنی شرعی رُکاوٹ) نہ ہو تو مُخاطَب کے چہرے کی طرف دیکھ کر بھی گفتگو کرنے میں شَرعاًکوئی حَرَج نہیں ۔ اگر نگاہوں کی حفاظت کی عادت بنانے کی نیّت سے ہر ایک سے نیچی نظر کئے بات کرنے کا معمول بنائے تو بَہُت ہی اچّھی بات ہے کیوں کہ مُشَاہَدَہ یہی ہے کہ فی زمانہ جس کی نیچی نگاہیں رکھ کر گفتگو کرنے کی عادت نہیں ہوتی اُسے جب اَمْرَد یا اَجْنَبِیَّہسے بات کرنے کی نوبت آتی ہے اس وَقت نیچی نگاہیں رکھنا اس کیلئے سخت دشوار ہوتا ہے ۔
سُوال : سرکارِمدینہ صلَّی اللہ ُتَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وسلَّمکے نظر فرمانے کے مختلف انداز بتا دیجئے ۔
جواب : حضرتِ سیِّدُنا محمد بن عیسٰی ترمِذی علیہ ر حمۃ اللّٰہِ القوی نقل فرماتے ہیں : جب سرکارِ دو عالم، نُورِ مُجَسَّم ، شاہِ بنی آدم ، رسولِ مُحتَشَم صلَّی اللہ ُتَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وسلَّمکسی طرف توجُّہ فرماتے تو پوریمُتَوَجِّہ ہوتے ، مبارَک نظریں نیچی رہتی تھیں ، نظر شریف آسمان کے بجا ئے ز یادہ تر زمین کی طرف ہوتی تھی ، اکثر آنکھ مبارَک کے کَنارے سے دیکھا کرتے تھے ۔ ([1]) مذکورہ حدیث پاک میں یہ الفاظ ’’پورے مُتَوَجِّہ ہوتے ‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ نظر چراتے نہیں تھے ۔ اور یہ بات کہ’’ مبارَک نظریں نیچی رہتی تھیں ‘‘ یعنی جب کسی چیز کی طرف دیکھتے تو اپنی نگاہ پَست( یعنی نیچی) فرما لیا کرتے تھے ۔ بِلا ضَرورت اِدھر اُدھرنہ دیکھا کرتے تھے ، بس ہمیشہ عالِمُ الغَیب جَلَّ جَلاَ لُہٗ کی طرف مُتَوَجِّہ رہتے ، اُسی کی یادمیں مشغول اور آخِرت کے مُعامَلات میں غورو تفکُّر فرماتے رہتے ۔ ([2]) اور یہ الفاظ’’ آپ کی نظریں آسمان کی نسبت زمین کی طرف زیادہ رہتی تھیں ‘‘ یعنی یہ حد درجہ شرم وحیا کی دلیل ہے ، حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ : خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحمَۃٌ لّلْعٰلمینصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب گفتگو کرنے بیٹھتے تواپنی نگاہ شریف آسمان کی طرف زیا دہ اُٹھاتے تھے ۔ ([3])یعنی یہ نظر کا اٹھاناانتظارِ وحی میں ہوتا تھا ورنہ نظر مبارک کا زمین کی طرف رکھنا روز مرّہ کے معمولات میں تھا ۔ ([4])
جس طرف اُٹھ گئی دم میں دم آ گیا
اُس نگاہِ عنایت پہ لاکھوں سلام
جشنِ ولادت کی بَرَکت سے مَیری زندگی بدل گئی
اسلامی بہنو!ہم مسلمانوں کیلئے سُلطانِ مدینۂ منوَّرہ ، شَہَنْشاہِ مُکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے یومِ ولادت سے بڑھ کرکون سادن’’ یومِ اِنعام‘‘ ہوگا؟ تمام نعمتیں اُنہیں کے طُفَیل تو ہیں اور یہ دن عید سے بھی بہتر کہ اُنہیں کے صدقہ میں عید بھی عید ہوئی ۔ اِسی وجہ سے پِیر شریف کے دن روزہ رکھنے کا سبب ارشاد فرمایا : فِیْہِ وُلِدتُّ یعنی اِس دن میری وِلادت ہوئی ۔ (صَحِیح مُسلِم ص ۵۹۱حدیث۱۱۶۲)اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّتبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ، دعوتِ اسلامی کی طرف سے دنیا کے بے شمار مُمالِک کے لاتعداد مقامات پر ہر سال عیدِ مِیلادُ النَّبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شاندارطریقے پر منائی جاتی ہے ۔ ربیعُ النُّور شریف کی ۱۲ویں شب کو عظیمُ الشّان اِجتِماع مِیلاد کا اِنعِقاد ہوتا ہے اور عید کے روز مرحبا یا مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دُھومیں مچاتے ہوئے بے شمار جُلوس میلاد نکالے جاتے ہیں جن میں لاکھوں عاشقانِ رسول شریک ہوتے ہیں ۔
عیدِ میلادُ النّبی تو عید کی بھی عید ہے
با لیقیں ہے عیدِ عیداں عیدِ میلاد النَّبی
جشنِ وِلادت کی بھی خوب بہاریں ہیں ، ایسی ہی ایک بہار سنئے ، چُنانچہ ایک اسلامی بہن کا بیان کچھ یوں ہے کہ عام لڑکیوں کی طرح میں بھی فلمیں ڈرامے دیکھنے کی عادی ، گانے سُننے کی شوقین اور شادی بیاہ میں بن سنور کر بے پردہ شریک ہونے کی دلدادہ تھی ۔ ’’ مرنے کے بعد میرا کیا بنے گا ‘‘ اس کا مجھے بِالکل بھی احساس تک نہ تھا ! 2سال پہلے مجھے بابُ المدینہ کراچی اپنے رشتہ داروں کے ہاں