’’آہ‘‘ جب نکلی تڑپ کر بے کس و مجبور کی آرزو کب آئے گی بَر بے کس و مجبور کی
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اسلامی بہنو! اَلْحَمْدُ لِلّٰہعَزَّوَجَلَّ گھر گھر جا کر نیکی کی دعوت دینے کی بھی واقِعی بڑی بَرَکتیں ہیں ، ہو سکتا ہے آپ کی تھوڑی سی کوشش کسی کی تقدیر بدل کر رکھ دے اوروہ آخِرت کی بہتریاں اکٹّھی کرنے میں مصروف ہو جائے اور آپ کا بھی بیڑا پار ہو جائے ۔ سوچئے تو سہی ! آپ کی نیکی کی دعوت سُن کر جو اسلامی بہن مَدَنی ماحول سے مُنسلک ہو جاتی ہو گی اُس کو کتنا سُکون ملتا ہو گا اور اُس کا دل کس قَدَر خوش ہو جاتا ہوگا! سُبحٰنَ اللّٰہ! مسلمان کا دل خوش کرنا بھی بَہُت بڑے ثواب کا کام ہے چُنانچِہ شَہَنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نَوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمِنہ کے لال، محبوبِ ربِّ ذوالجلال عَزَّ وَجَلَّ وَ صلَّی اللہ ُتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ورَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمایا : ’’ جو شخص کسی مؤمن کے دل میں خوشی داخل کرتاہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس خوشی سے ایک فرِشتہ پیدا فرماتا ہے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت اور توحید بیان کرتا ہے ۔ جب وہ بند ہ اپنی قَبْر میں چلا جاتاہے تو وہ فرِشتہ اس کے پاس آکر پوچھتاہے : ’’کیا تو مجھے نہیں پہچانتا؟ ‘‘وہ کہتا ہے کہ تو کون ہے ؟ تو وہ فرِشتہ کہتاہے کہ میں وہ خوشی کی شکل ہو ں جسے تو نے فُلاں مسلمان کے دل میں داخِل کیا تھا، اب میں تیری وَحشت میں تیرا مونس ہوں گا اور سُوالات کے جوابات میں ثابت قدم رکھوں گا اور روزِ قیامت میں تیرے پاس آؤں گا اور تیرے لئے تیرے ربعَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سفارش کروں گا اور تجھے جنّت میں تیرا ٹھکانادکھاؤں گا ۔ (اَلتَّرْغِیب وَالتَّرْہِیب ج ۳ ص ۲۶۶ حدیث ۲۳ )
تاج و تخت و حکومت مت دے ، کثرتِ مال و دولت مت دے
اپنی خوشی کا دیدے مُثردہ، یااللہ مری جھولی بھر دے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سِتْر کی قسمِ دُوُم کے چار حصّے
اب سِتْرکی دوسری قسم ( یعنی علاوہ نمازکے سِتْر)کی تفصیلات سوالاً جواباً پیشِ خدمت ہیں ۔ اِس کے احکام کی چاراقسام ہیں : {1}مرد کا مرد کے لئے سِتْر {2} عورت کا عورت کے لئے سِتْر {3}عورت کے لئے اجنبی مرد کا سِتْر {4}مرد کے لئے عورت کا سِتْر ۔
{۱}مرد کا مردکیلئے سِتر
سُوال : مرد کاسِتْر کہاں سے کہاں تک ہے ؟
جواب : مرد کا سِتْر ناف کے عَین نیچے سے لیکر گھٹنوں سَمَیت ہے ، نافسِتْر میں شامِل نہیں ۔ صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : مرد، مرد کے ہر اُس حصّۂ بدن کی طرف نظر کرسکتا ہے سواء ان اَعضاء کے جن کا سِتْر(یعنی چھپانا)ضَروری ہے وہ ناف کے نیچے سے گُھٹنے کے نیچے تک ہے کہ اس حصّۂ بدن کا چھپانا فرض ہے ۔ جن اَعضاء کا چُھپانا ضَروری ہے ان کو عورت کہتے ہیں کہ کسی کو گُھٹنا کھولے ہوئے دیکھے تو منع کرے اور ران کھولے ہوئے دیکھے تو سختی سے منع کرے اور شرم گاہ کھولے ہوئے ہو تو اسے سزا دی جائے گی ۔ (بہارِ شریعت حصّہ ۱۶ ص۸۵)یاد رہے ! سزا دینا عوام کا نہیں حُکّام کا کام ہے ۔ ضَرورتاً باپ اولاد پر، اُستاذ شاگرد پر، پیر مُرید پر سختی بھی کر سکتا ہے اور سزا بھی دے سکتا ہے ۔ چُنانچِہ بہارِ شریعت جلد1صَفْحَہ 482پر ہے : اگر عورتِ غلیظ( یعنی آگے اور پیچھے کے مخصوص حصّے )کھولے ہوئے ہے تو جومارنے پر قادِر ہو مَثَلاً باپ یا حاکم وہ مارے ۔
سُوال : کیا دودھ پیتے بچّے اور بچّی کے بھی گُھٹنے اور رانیں وغیرہ چھپانا ضَروری ہیں ؟
جواب : جی نہیں ، دودھ پیتا بچّہ پورا ہی ننگا ہو تب بھی اس کی طرف نظر کرنے میں کوئی حَرَج نہیں ۔ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 312 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’بہارِ شریعت‘‘حصّہ 16 صَفْحَہ 85پر صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : بہت چھوٹے بچّے کے لیے عورت نہیں یعنی اس کے بدن کے کسی حصّہ کو چُھپانا فرض نہیں ، پھر جب کچھ بڑا ہوگیا تو اس کے آگے پیچھے کا مقام چھپانا ضَروری ہے ۔ پھر جب اور بڑا ہو جائے دس برس سے بڑا ہو جائے تو اس کے لیے بالِغ کا سا حکم ہے ۔ (بہارِ شریعتحصّہ ۱۶ص۸۵)
بَہُت چھوٹے بچّے کی ران کو چُھونا کیسا؟
سُوال : بَہُت چھوٹے بچّے کی ران کوچُھو نا کیسا؟
جواب : چُھو سکتا ہے ۔ ہاں اگر دیکھنے اورچُھونے سے شَہوت آتی ہو تو اب ایک دن کے بچّے کو بھی نہ دیکھ سکتا ہے نہ چُھو سکتا ہے ۔ آج کل حالات بَہُت نازک ہو گئے ہیں معاذَاللہ عَزَّ وَجَلَّ