بھر لی اور سوچا چلو ایک عَلاقائی اجتماع میں تو شرکت کر ہی لوں بعد میں نہیں جاؤں گی ۔ مگر دعوتِ اسلامی والی دیوانیاں مرحبا! انہوں نے اپنا دل نہ توڑا، میری آخرت کی بھلائی کی خاطر میرا پیچھا نہ چھوڑا، شفقت ومحبت کا سلسلہ برابر جاری رکھا اور خوب ملنساری کے ساتھ اِنفرادی کوشش کرتی رہیں ۔ بِالآخران کے حُسنِ اَخلاق نے میرے پتّھر سے بھی سخت دل کو موم بنا ہی دیا اور میں رفتہ رفتہ مَدَنی ماحول میں رچ بس گئی ۔
علی کے واسِطے سورج کو پھیرنے والے
اشارہ کر دو کہ میرا بھی کام ہو جائے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سُوال : اسلامی بہنیں قبرِ ستان یا مَزارات ِاَولیاء پر جاسکتی ہیں یا نہیں ؟
جواب : عورَتوں کے لئے بعض عُلَماء نے زیارتِ قُبُور کو جائز بتایا، ’’ دُرِّمختار‘‘ میں یِہی قَول اختیار کیا، مگر عزیزوں کی قُبُور پر جائیں گی تو جَزَع وفَزَع(یعنی رونا پیٹنا) کریں گی لہٰذا ممنوع ہے اور صالحین ( رَحِمَہُمُ اللّٰہُ المبین)کی قُبُور پر بَرَکت کے لئے جائیں تو بوڑھیوں کے لئے حَرَج نہیں اور جوانوں کے لئے ممنوع ۔ (رَدُّالْمُحتارج ۳ ص ۱۷۸)صدرُ الشَّریعہ بدرُ الطَّریقہ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : او ر اسلم (یعنی سلامتی کا راستہ )یہ ہے کہ عورتیں مُطلَقاً منع کی جائیں کہ اپنوں کی قُبُور کی زیارت میں تو وُہی جَزَع وفَزَع (یعنی رونا پیٹنا) ہے اور صالحین ( رَحِمَہُمُ اللّٰہُ المبین)کی قُبُور پر یا تعظیم میں حد سے گزر جائیں گی یا بے ادَبی کریں گی تو عورَتوں میں یہ دونوں باتیں کثرت سے پائی جاتی ہیں ۔ (بہارِ شریعت جلد اوّل ص ۸۴۹مکتبۃ المدینہ)
میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے عورَتوں کو مزارات پر جانے کی جا بجا مُمانَعت فرمائی ۔ چُنانچِہ ایک مقام پر فرماتے ہیں : امام قاضی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے اِستِفْتاء (سُوال ) ہوا کہ عورَتوں کا مَقَابِرکو جانا جائز ہے یانہیں ؟ فرمایا : ایسی جگہ جواز وعَدَمِ جواز( یعنی جائز و ناجائز کا) نہیں پوچھتے ، یہ پوچھو کہ اس میں عورت پر کتنی لعنت پڑتی ہے ؟ جب گھر سے قُبُور کی طرف چلنے کا ارادہ کرتی ہے اللہ َّ(عَزَّوَجَلَّ) اورفِرشتوں کی لعنت ہوتی ہے جب گھر سے باہَر نکلتی ہے سب طَرفوں سے شیطان اسے گھیر لیتے ہیں ، جب قبر تک پہونچتی ہے میِّت کی روح اُس پر لعنت کرتی ہے جب تک واپَس آتی ہیاللہ عَزَّ وَجَلَّ کی لعنت میں ہوتی ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۹ ص۵۵۷)
عورت جنّتُ الْبقیع میں حاضِری دے یا نہیں ؟
سُوال : حاضِریٔ مدینہ کے موقع پر اسلامی بہن جنّتُ البقیع اورشُہَدائے اُحُدرِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم اَجمَعِین کے مزارات پر حاضِری دے سکتی ہے یا نہیں ؟
جواب : نہیں دے سکتی ۔
سُوال : کیا ان مزارات پر باہَر سے بھی سلام نہیں عرض کرسکتی؟
جواب : اسلامی بہن پیدل یا سواری پر کسی کام سے نکلی ہو حاضِری کی نیّت ہی نہ ہو اور اب اتِّفاقاً جنّتُ البقیع ، جنَّتُ المعلیٰ یامسلمانوں کے کسی بھی قبرِستان یا کسی بُزُرگ کے مزار شریف کے قریب سے گزر ہوا اور بِغیر رُکے دُور ہی سے سلام عرض کر دیا تو حَرَج نہیں ۔
سُوال : اسلامی بہن محبوبِ ربِّ اکبر، مدینے کے تاجور، شَہَنْشاہِ بحروبر ، حضورِانور عَزَّ وَجَلَّ وصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے روضۂ مُنوَّر پر حاضِری کے لئے جاسکتی ہے یا نہیں ؟
جواب : سِوائے روضۂ انور کے کسی اور مزار پر جانے کی اجازت نہیں ۔ وہاں کی حاضِر ی البتّہ سنّتِ جَلیلہ عظیمہ قریب بوَاجب (یعنی واجِب کے قریب ) ہے اور قرآنِ عظیم نے اسے گناہوں کی مُعافی کاعظیم ذَرِیْعہ بتایا ۔ پارہ 5 سورۃُ النّساء کی آیت نمبر 64 میں ارشادہوتا ہے :
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) (پ ۵ النساء ۶۴ )
تَرجَمۂ کنزالایمان : اور اگر جب وہ اپنی جا نو ں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حُضُور حاضِر ہوں اور پھر اللہ (عزوجل) سے مُعافی چاہیں اور رسول انکی شَفاعت فرمائے توضَرور اللہ کوبَہُت توبہ قَبول کرنے والا مہربان پائیں ۔
خود حدیثِ پاک میں ارشاد ہوا : ’’جو میری قبر کی زیارت کرے اسکے لئے میری شَفاعت واجِب ۔ ‘‘( دارقُطنی ج۲ص۳۵۱حدیث۲۶۶۹) حضرتِ سیِّدُنا ابو ہُریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہعَزَّوَجَلوصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جس نے حج کیا اور میری زیارت نہ کی اُس نے مجھ پرجَفا کی ۔ ( الکامل فی ضعفاء الرجال ج۸ص۲۴۸) بے شک حاضِریٔ بارگاہِ اقدس واجِب کے قریب ہے ، اس میں قَبولِ توبہ، اوردولتِ شَفاعت حاصِل ہونابھی ہے نیز اس میں سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ معاذ اللّٰہ جَفا( یعنی ظلم) سے بچنا بھی ہے ۔ یہ عظیم اَہَمّ اُمور ایسے ہیں جنہوں نے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سارے غلاموں اور ساری کنیزوں پر خاک بوسیٔ آستانِ عرش نشان لازِم کردی بخلاف دیگر قُبور